ہلیری نےکب آپ کےگلے میں ہار ڈالا تھا؟

ہلیری نے آپ کے گلے میں ہار نہیں ڈالنے تھے

آج میرے تقریباﹰ سبھی پاکستانی دوستوں اور صحافیوں نے ٹرمپ کی جیت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ لیکن میری نظر میں نہ تو یہ کوئی افسوس کی بات ہے اور نہ ہی خوشی کی۔ ٹرمپ اور ہلیری ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ٹرمپ کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ دیگر امریکی سیاستدانوں کی طرح ’منافق‘ نہیں ہے۔ جارج ڈبلیو بش سے لے کر باراک اوباما تک اس دنیا میں کتنا امن ہو گیا ہےِ؟ کیا جنگیں ختم ہو گئی ہیں؟ کیا دنیا میں نئے محاذ نہیں کھلے؟ کیا مسلمانوں کو جوتیاں پڑنی بند ہو گئیں؟ پاکستان کے حوالے سے تو اوباما اپنے پیش رو بش سے کئی گنا زیادہ سخت ثابت ہوئے اور ہلیری اوباما کی پالیسیوں کی ہی جانشیں ہیں۔ ہلیری جیت بھی جاتیں تو خارجہ پالیسی کے حوالے سے امریکا کی موجودہ پالسیاں تسلسل سے جاری رہنی تھیں۔ شام، عراق افغانستان سبھی جگہ کسی تبدیلی کی کوئی امید نہیں تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آنے سے پاکستان ایک نیا آغاز کر سکتا ہے، جمود کی شکار دنیا کی سفارت کاری ایک مرتبہ پھر متحرک ہو گی۔

میرے خیال میں خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے ٹرمپ عملی طور پر سابق امریکی صدور سے زیادہ برا ثابت نہیں ہوگا۔ وہ کوئی نئی جنگ نہیں چھیڑے گا بلکہ روس، شام اور دیگر تنازعات کے حوالے سے نئے مذاکرات کا آغاز ہوگا۔

ہلیری آتیں تو اس نے بھی مسلمانوں یا پاکستانیوں کے گلے میں کوئی ہار نہیں ڈالنے تھے اور ٹرمپ بھی ایسا کرنے والا نہیں ہے۔ مسلمانوں یا تیسری دنیا کے لیے نہ تو ہلیری کلنٹن نے مسیحا ثابت ہونا تھا اور نہ ہی ٹرمپ نے۔ امریکی مسلم باشندوں کی خفیہ جاسوسی کا عمل ویسے ہی جاری رہے گا، بینکوں کی اجارہ اداری ویسے ہی قائم رہے گی، دنیا کا معاشی نظام ویسے ہی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہی رہے گا۔ اسلحہ ساز کمپنیاں اپنا کام ویسے ہی کرتی رہیں گی، آئین کے تحت جو حقوق امریکی مسلمانوں کو ملے ہیں، وہ ویسے ہی ملتے رہیں گے۔

لیکن ہماری ایک عادت ہے کہ ہم ہمیشہ کسی دوسرے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ثابت ہوئے ہیں اور آج بھی یہی کام سر انجام دے رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے