شخصی آزادی

تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں،سخت ہیں فطرت کی تعزریں۔

ہمارے ہاں اکثر و بیشتر آزادی اظہار،اختلاف رائے اور انعقاد جلسہ و جلوس کو جمہوریت کا حسن اور جمہوریت کے ماتھے کا جھومر قرار دیا جاتا ہے لیکن اگر ان تمام اور دیگر امور کو کسی ایک جامع اصطلاع میں بیان کیا جائے تو وہ ہے شخصی آزادی۔ دنیا کے تمام نظام خوہ وہ آمریت ہو، بادشاہت ہو یا جمہوریت ہی کیوں نہ ہو تشکیل حکومت کا ایک پورا نظام یا مکینزم رکھتے ہیں لیکن شخصی آزادی ہی وہ بنیادی شہ ہے جو جمہوریت کو نہ صرف یہ کے دوسرے تمام نظام ہائے حکومت سے ممتاز کرتی ہے بلکے شخصی آزادی ہی جمہوریت کی کشش اور اس وسیع پیمانے پر رائج ہونے کا باعث ہے۔شخصی آزادی جمہوریت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ہے جو ایک شخص کو نہ صرف یہ کہ آزادی مہیا کرتا ہے بلکے خود اس آزادی کا محافط بھی ہے۔مملکت خداد پاکستان ایک جمہوری مملکت ہے اور پاکستا ن کا آئین پاکستان کے شہریوں کو ہر طرح کی شخصی آزادی دیتا ہے۔ قبل اسکے کے پاکستان میں شخصی آزادی کی موجودہ صورت حال اور موجودہ رویوں کا جائزہ لیا جائے بہتر ہے کہ ایک عبوری نظر آئین پاکستان کی ان شقات اور دفعات پر ڈالی جائے جو شخصی آزادی سے متعلق ہیں۔

آئین پاکستان کا آرٹیکیل تین مملکت سے تمام قسم کے استحصال کا خاتمہ کرتا ہے،نیز ہر شخص سے اسکی اہلیت کے مطابق کام اور کام کے مطابق معاوضہ ادا کرنے کو لازمی قرار دیتا ہے۔ آرٹئیکل نمبر چار قانون کا تحفظ ہر شہری کا ناقابل انتقال حق تسلیم کرتا ہے، اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کوئی ایسی کاروائی نہ کی جائے جو کسی شخص کی جان، آزادی، شہرت، جائیداد، املاک کے لیے مضر ہو، کسی شخص کو ایسے کسی کام سے نا روکا جائے گا جو ممنوع نہ ہو اور نہ اسے کسی کام کے کرنے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔آئین کا آرٹئیکل نمبر آٹھ مملکت کو پابند کرتا ہے کہ ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکے گا جو حقوق کو کم کرتا ہو یا سلب کرتا ہو، ہر وہ قانون جو اس شق کی خلاف ورزی کرتا ہو اسکو کو خلاف ورزی کی حد تک کالعدم قرار دیا جائے گا۔ آرٹئیکل نمبر نو ہر شخص کی زندگی اور آزادی کی ضمانت دیتا۔ آرٹئیکل نمبر دس ہر شہری کو حق دیتا ہے کہ اسے گرفتاری کی صورت میں گرفتاری کی وجوہ سے جلد از جلد آگاہ کیا جاے، ہر شخص کو یہ حق کہ وہ اپنی پسند کے کسی قانون پیشہ شخص سے مشورہ کرے اور اپنی صفائی پیش کرے۔ آرٹئیکل نمبر دس شق دو اس بات کو لازم قرار دیتی ہے کہ گرفتار شخص کو چوبیس گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائےآرٹئیکل گیارہ غلامی کا معدوم اور ممنوع قرار دیتا ہے اور مملکت کے لیے لازمی قرار دیتا ہے کہ کوئی بھی قانون ایسا نہیں بنایا جائے گا جو غلامی کو رواج دینے کی اجازت دیتا ہو یا اسے سہلت بہم پہنچاتا ہو۔نیز اسی آرٹئیکل کی شق دو بیگار کی تمام صورتوں اور انسانی خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیتی ہے، شق تین چودہ سال سے کم عمر بچوں کو کارخانوں، کانوں یا دیگر پر خطر ملازمتوں سے روکتی ہے۔ آرٹئیکل تیرہ اس بات کا پابند کرتا ہے کہ کسی شہری کے خلاف ایک ہی جرم پر نہ ایک سے زیادہ دفعہ مقدمہ جلایا جا سگے گا اور نہ ایک بار سے زیادہ سزا دی جا سکے گی اور نہ اسے اپنے خلاف گوہ بننے پر مجبور کیا جا سکے گا۔ آرٹئیکل چودہ شرف انسانی اور قانون کے تابع گھر کی خلوت کو قابل حرمت قرار دیاتا ہے ، کسی شخص کو شہادت کے حصول کی خاطر اذیت نہیں دی جا سکتی۔ آرٹئیکل پندرہ ہر شخص کو پاکستان میں رہنے اور پاکستان میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے اور کسی بھی جگی سکونت اختیار کرنے کا حق دیتا ہے۔

آرٹئیکل سولہ ہر شخص کو بغیر اسلحہ کے اور قانونی پابندیوں کے تابع جمع ہونے یا اجتماع منعقد کرنے کا حق دیتا ہے، آرٹئیکل سترہ ہر شہری کو انجمنیں یا جماعتیں بنانے کا حق دیتا ہے، ہر شہری جو ملازمت پاکستا میں نہ ہو کو حق حاصل ہے کہ وہ جماعت بنا سکتا ہے یا کسی جماعت کی رکنیت حاصل کر سکتا ہے۔ آرٹئیکل اٹھارہ ہر شہری کو جائز پیشہ ، مشغلہ، تجارت اور کاروبا کی اجازت دیتا ہے۔ آڑٹئیکل انیس ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی دیتا ہے اور پریس کی آزادی کی اجازت دیاتا ہے۔ انیس اے کے تحت ہر شہری کو عوامی اہمیت کی حامل تمام معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے ۔ آرٹئیکل بیس ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی، عمل کرنے اور تبلیغ کی آزادی دیتا ہے، بیس ب ہر مذہبی گروہ کو اپنے فرقے کیادارے قائم کرنے، انکو برقرار رکھنے اور انتظام کرنے کا حق عطا کرتا ہے۔

آئین کا آرٹئیکل تئیس ہر شہری کو جائیداد رکھنے اور خرید و فروخت کا حق دیتا ہے،، آرٹئیکل چوبیس کے تحت کسی شخص کو کو جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا سوائے اسکے کے قانونی جواز موجود ہو۔آئین کا آرٹئیکل تینتیس شہریوں کے درمیان مساوات کو برقرار رکھتا ہے اور علاقے، نسل قبیلے فرقے اور ضوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔آرٹئیکل پینتیس مملکت کو شادی، خاندان، ماں اور بچے کے تحفظ کا پابند کرتا ہے، آرٹئیکل چھتیس مملکت پاکستان کو اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا پابند کرتا ہے۔ آرٹئیکل 37 شق ہ اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو انکی عمر اور جنس کے لیے نا مناسب ہو اور ملازم عورتوں کو زچکی سے متعلق مراعات دی جائیں گی، اسی آرٹئیکل کی شق د ریاست کو یہ ذمے داری سونپتی ہے کہ مختلف علاقوں کے لوگوں کو اس قابل بنیا جائے کہ وہ ہر قسم کی قومی سرگرمیوں میں بشمول ملازمت پاکستان میں پورا حصۃ لے سکیں ۔

آرٹئیکل انتالیس میں مملکت خداد پاکستان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ تمام علاقے کے لوگوں کو پاکستان کی مسلح افواج میں شرکت کے قابل بنائے گی۔ جمہوری نظام میں شخصی آزادی آئین پاکستان کے آرٹئیکل چالیس میں اپنی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے یعنی آرٹئیکل چالیس کے تحت کوئی بھی چالیس سالہ مسلمان شہری جو ممبر اسمبلی بننے کا اہل ہو مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر بننے کا اہل قرار پاتا ہے۔ شخصی آزادی کی انتہاء کا دوسرا مظہر آئین پاکستان کا آرٹئیکل 62ہے جس کے تحت کوئی بھی پچیس سالہ پاکستانی شہری ممبر اسمبلی بننے کا اہل قرار پاتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کے آئین کے ان جلی حروف کی موجودگی میں بھی سیاست کو مخصوص افراد کا حق تسلیم کر لیا گیا ہے ۔

پاکستان کا ہر شہری قومی سلامتی، ملکی دفاع، مفاد عامہ اور اسلام کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مکمل آزادی کا حقدار ہے۔

اس تفصیلی گفتگو کے بعد اگر پاکستانی معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں بنیادی طور پر دو بطقات ہیں ۔طبقہ اول صاحب اختیار و صاحب اقتدار لوگوں کا جنکو نہ صرف یہ کہ تمام تر آزادی حاصل ہے بلکے وہ اس آزادی کی آڑ میں اکثر جائز حدود سے بھی آگے نکل کر معاشرتی و اخلاقی اقدار کو بھی پامال کرنے سے ذرا بھر نہیں چونکتے۔ آزادی کی اس انتہاء کا اول مظہر تو آج کل سیاسی اجتماعت اور سیاسی جلسے ہیں جن میں سیاسی و قومی معمالات کے ساتھ ساتھ گانے بجانے، رنگا رنگ مظاہروں اور رقص کا باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے بلکے قومی و ملکی سطح کے لیڈران بھی اپنی استطاط کے مطابق ان مظاہر میں خوب حصہ لیتے ہیں۔ پہلے پہل تو یہ صرف پاکستان تحریک انصاف کا ہی خاصہ سمجھا جاتا تھا لیکن اب تحریک انصاف اس میدان میں تنہاء نہیں رہی بلکے دوسری تمام جماعتیں بھی خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے کی مصداق اس میدان میں اپنی بساط کے مطابق خوب جوہر دکھا رہی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ میڈیا جو میرے نزدیک قومی تربیت کا بہترین اور نہائیت موثر ذریعہ ہے گویا کہ ایسی ہی اجتعمات اور جلسوں کی تاک میں بیٹھا رہتا ہے اور ان مناظر کی خوب خوب تشہیر کرتا ہے۔ آزادی صحافت کے نام پر میڈیا باالخصوص الیکٹرانک میڈیا اس ضمن میں ایک علحیدہ موضوع بحث ہے۔

آزادی کی اس انتہاء کا دوسرا مظہرمعاشرے میں ہونے والی عام تقریبات بشمول شادی بیاہ اور یگر اداروں باالخصوص سکول، کالج اور یونیورسٹیز میں ہونے والی مختلف تقریبات و فسٹیولز ہیں، جہاں تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر اخلاقی اقدار کو پامال کیا جاتا ہے، پارٹیوں کے نام پر شرم و حیا ،شرف انسانی، مشرقی اقدار اور تہذیب و تمدن کا جنازہ نکالا جاتا ہے ۔ نوجوانوں کو با الخصوص طلباء و طالبات کو مغربی پرستی کا پہاڑا پڑایا جاتا ہے اور جدت کے نام پر یورپی و مغربی فکر کا مقلد بنایا جا رہا ہے۔یہ اسی کا منطقی نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت قومی و ملکی معمالات سے سر سری سی دلچسپی ، اپنے ماضی سے لا تعلق اور دین اسلام سے عملی اعتبار سے غافل ہے۔

علمی اور فکری سطح پر سیاست و مذہب کی جدائی، سکیولر ازم اور لبرل ازم کی دہائی،نظریہ پاکستان کی تاویلات ، پاکستان میں اسلامی نظام کی مخالفت، اسلام بطور نظام کا عدم یقین، ہم جنس پرستی کا پرچار یہ سب کچھ اور اسی نوعیت کے جملہ امور و نظریات اسی شخصی و جمہوری آزادی کے نام پے ہی تو ہو رہے ہیں۔
اس کے بر عکس معاشرے کا دوسرا طبقہ یعنی عام عوام جو آئین پاکستان کا برائے راست مخاطب ہیں نہ صرف یہ کہ شخصی آزادی سے محروم ہیں بلکے ایک عظیم اکثریت اپنے آئینی حقوق اور اپنی بنیادی آزادی کا شعور و ادراک تک نہیں ہے۔ آئین پاکستان کسی بھی نوعیت کی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا بلکے پہلے سے موجود طبقاتی تقسیم کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ور مملکت کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ تقسیم کو ختم کرنے اور شخصی آزادی کو ممکن بنانے کے اقدامات کیے جائیں۔پاکستانی عوام کی ایک عظیم اکثریت بنیادی صحت، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے، روزگار کے اعلیٰ ذرائع، اعلیٰ تعلیمی ادارے اور اعلیٰ معیار زندگی ایک عام شخص کے تصور سے بھی دور ہے۔

ایک عام شہری کسی بڑے شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور حق دعویٰ سے محروم ہے۔ قانون اور آئین بڑے خاندانوں کی گھر کی کنیز ہے، قومی خزانہ اور قومی دولت پر انہی بڑے لوگوں کا بلا شرکت غیر حق تصرف تسلیم کر لیا گیا ہے۔سیاست جو آئین پاکستان کے تحت ہر شہری کا حق ہے عملی طور پر سرمایہ داروں اور سیاسی خاندانوں کی اولادوں کا حق تسلیم کر لیا گیا ہے، ایک عام شہری کو اول تو اپنے مصائب سے ہی اتنی فرصت نہیں کے وہ عملی طور پر سیاست میں حصہ لے اور اگر باالفرض میسر بھی آ جائے تو اس کے پاس نہ اتنی طاقت ہے اور نہ اتنا سرمایہ کہ وہ عملی طور پر قومی و ملکی سیاست میں کوئی قابل ذکر کردار ادا کر سکتا ہو۔ اس سارے منظر میں ایک عام آدمی کی آزادی الیکشن میں ووٹ تک محدود ہے اور وہ بھی اکثر برادری، دولت ، طاقت اور دوسرے ذرائع سے چھین لی جاتی ہے۔۔ اپنی غلامی اور محرومی کا احساس نا ہونا محرومی و غلامی سے دوگنا بدتر ہے اور افسوس کے پاکستانی عوام میں اور کاروں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا کے مصداق یہ احساس بھی محو ہو رہا ہے اور ہمارے حکمران، سیاستدان اور میڈیا بھی اس امر کی جانب کوئی توجہ نہیں بلکے ان کے نزدیک یہ شاید کوئی مسلہ ہی نہیں ہے ۔

پاکستان میں جمہوریت اورنفاذ آئین کا تصورہر پانچ سال بعد انعقاد الیکشن اور منتقلی اقتدار تک محدود ہے اور یوں باقاعدہ آئین کی موجودگی میں ہم ایک طرح کی لاقانونیت کی سی کفیت سے دوچار ہیں۔ آئین کا نفاذ، شہریوں کے حقوق کی فراہمی اور شخصی آزادی کو ممکن بنانا نہ کسی غیر ملکی تنظیم کا کام ہے اور نہ کسی دوسرے نجی ادارے کا کام بلکے حکومت وقت کی پہلی ذمے داری ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے