علی بابا اور حرامی

کہا جاتا ہے جب الفاظ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہوتے ہیں۔ تو کافی حد تک ان کے معنی میں تبدیلی آجاتی ہے. لیکن کتنی تبدیلی آتی ہے اس کا عملی تجربہ تب ہوا.جب 2006 کی ابتدا میں کویت میں میرا واسطہ عربوں اور عربی سے پڑا. اگر ہم اپنی قومی زبان اردو کی بات کریں تو اس بات سے ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ ہماری قومی زبان اردو میں عربی اور فارسی الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں ۔اور یہ الفاظ تھوڑے سے مختلف لب و لہجہ کے ساتھ ہماری روز مرہ بول چال کا لازمی حصہ ہیں۔ان لفظوں کا یہ ہی کثیر استعمال عرب دنیا میں رہنے والے ہم پاکستانیوں کے لیےایک پلس پوائنٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور میرے نزدیق یہ ہی ایک خاص وجہ بھی ہے کہ عرب ممالک میں رہنے والے ہم پاکستانی وہاں رہنے والی دیگر غیر عرب اقوام کے مقابلے بہت تیزی کے ساتھ عربی سیکھ جاتے ہیں اور کئی تو ہمارے ہم وطن بھائی ایسے بھی ہیں۔جن سے گفتگو کے دوران اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ وہ غیر عرب ہیں۔

یہ تو ہوا پلس پوائنٹ اب ایک منفی پہلو یہ ہے کے اردو زبان میں عربی زبان کے کئی الفاظ کے معنی یا مفہوم حرت انگیز طور پر مختلف ہیں اور کئی لفظوں کے بارے میں تو مجھے ایسا گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے کرپٹ معاشرے نے رفتہ رفتہ ان لفظوں کے معنی خود تبدیل کئے ہوں ۔ویسے تو کئی الفاظ ہیں جن کے معنی یا مفہوم ہم سےتبدیل ہوگئے ہیں۔ لیکن اس وقت زیادہ نہیں میں صرف دو لفظوں کا زکر کروں گا جن سے ہماری معاشرتی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔
ایک لفظ ہےحرامی۔

اب اس لفظ کو سن کر ہمارے زہہنوں میں کیا خیال آتا ہے؟
یعنی ہمارے معاشرے کی ایک غلیظ گالی۔
کسی کے فعل بد کا نتیجہ۔
ایسا بچہ جو۔
آپ سمجھ ہی گیے ہونگے۔

اب یہ بھی سن لیں کہ عربی زبان میں یا عرب معاشرے میں حرامی کسے کہتے ہیں۔
عرب حرامی کہتے ہیں چور کو۔

عرب معاشرے میں ہر اس انسان پر لفظ حرامی کا اطلاق ہوتا ہے۔جس کا کسب حرام پر ہو جو کسی بھی صورت حرام کھاتا ہو۔ یعنی چور ہو اور جب انہیں کسی انسان کے بارے میں یہ رائے دینی ہو کہ یہ انسان تو چوروں کا بھی سردار ہے۔ یعنی سب سے بڑا حرامی ہے تو عرب ایسے انسان کے لیے” علی بابا "کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
دوستوں یادآیا کچھ علی بابا کے نام سے؟
جی ہا یہ وہ ہی علی بابا ہیں کھل جا سم سم والے۔
علی بابا چالیس چور والے۔
جسے عربی میں کہتے ہیں۔
علی باباوالااربعین حرامی۔
اب بتائیں ہم توساری زندگی علی بابا کوایک ہوشیار آدمی اور اس کہانی کا ہیرو سمھجتے رہے۔ لیکن عربوں کے لیے جو اس کہانی کے خالق بھی ہیں۔ انکے لیےعلی بابا چوروں کے سردار نکلے یعنی کہانی کے سب سے بڑے چور۔
اب یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک ہی کہانی سے دومختلف اقوام دو مختلف نتائج اخذ کریں۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں ایک کامیاب انسان اسے تصور کیا جانے لگا ہے ۔جو یا تو بہت زیادہ پیسہ کما رہا ہو یا بہت پیسہ کما چکا ہو۔چاہے لوگوں کو لوٹ کر ہی صحیح یا پھر علی بابا کی طرح چوروں کو لوٹ کر۔
شاید یہ ہی وجہہ ہے کہ آج چور ہمارے ہیرو اور ہمارے معاشرے کے علی بابا ہمارے سپر ہیرو بن گئے ہیں۔

[pullquote]فرقان علی[/pullquote]

گزشتہ دس سال سے کویت میں مقیم ہوں اور ایک بلاگر ہوں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے