تلاوتِ قرآن کریم اور یوم دعا

اس وقت دنیا کے مختلف خطوں میں امتِ مسلمہ جس طرح خاک وخون میں تڑپ رہی ہے،ہر کلمہ گو پر جس انداز سے عرصہ حیات تنگ کیا جا چکا ہے،شام میں بے گناہوں اور معصوموں کی نعشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ،عراق میں بے گناہوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ،کشمیر میں ظلم وستم کا بازار گرم ہے ،برما میں درندگی کا ناچ جاری ہے،پاکستان بحرانوں کے بھنور میں ہے،کشت و خون کا بازار گرم ہے ،اداروں میں تصاد م اور محاذ آرائی کا ماحو ل ہے ،کرپشن اور بدعنوانی کا جن قابو ہی نہیں آرہا ،ہر روز کسی نئے حادثے کی خبر سنائی دیتی ہے اور دل کرچی کرچی ہو جاتا ہے ،کسی کا جان ومال محفوظ نہیں ،کسی کو شام کو خیریت سے واپس گھر لوٹنے کی امیدنہیں ہوتی،مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ، عدالتوں اور کچہریوں میں ہر روز انصاف کا خون ہوتا ہے،کہیں غربت بال کھولے بین کرتی اورکسی کو احساسِ محرومی کے سانپ مسلسل ڈستے رہتے ہیں ،برکت اٹھا لی گئی ،بار شیں روک لی گئیں ،دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان ہے کہ تھمنے میں نہیں آرہا ،ہر الزام اور ہر دشنام کا تیر مذہبی طبقا ت کے سینوں میں ترازو ہواجاتا ہے ،کہیں چھاپے ،کہیں ناکے ،کہیں کوائف طلبی ،کہیں فورتھ شیڈول ،کبھی ماؤں کے گھبرو جوان بچوں کو لاپتہ کر دیا جاتا ہے اور کہیں لاپتہ لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے ،دشمن کی سازشیں بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں ،استعماری قوتوں نے وطن عزیز کو اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے،دنیا کے کئی ممالک میں وطن عزیز کوعدم استحکام سے دوچار کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ہمارے عقیدے اور عقیدتوں کے مراکز یعنی حرمین شریفین تک محفوظ نہیں ،کبھی داعش کے نام سے خود کش حملے اور کبھی حوثیوں کی طرف سے مکہ مکرمہ پر میزائل داغنے کی جسارت .

ایسے میں ہر درد دل رکھنے والا شخص یہ سوچتا ہے کہ آخر ا س گھُمن گھیری سے نجات کی سبیل کیا ہو؟موجودہ صورتحال میں ہر طبقہ فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ کچھ نا کچھ ۔۔۔جو کچھ اس سے بن پڑے کر گزرے مگر سب سے اہم چیز دعا اور مناجات ہیں ،اللہ رب العزت کی طرف رجوع ہے ،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام ہے کیونکہ دعا سے تقدیر بدلتی ہے ،حالات کا فیصلہ احکم الحاکمین کی طرف سے ہوتا ہے اور ہماری آخری پناہ گاہ وہی رب کریم ہے ،قرآن کریم کی تلاوت سے اللہ کی رحمتوں کانزول ہوتا ہے ،بلائیں ٹلتی ہیں ۔۔۔یہ جو وطن عزیز کو مدتوں سے لوٹا جا رہا ہے اور یہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ،یہ جو سازشوں کے تانے بانے بنے جاتے ہیں اور پھر بھی اللہ اس پاک وطن کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں اور یہ جو اس ملک کو توڑنے ،نچوڑنے میں کو ئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی مگر اس کے باوجود ہر روز امکانات کے نئے تارے طلوع ہوئے جاتے ہیںیہ سب قرآن کریم کی تلاوت ہی کی تو برکات ہیں اس لیے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر ،رئیس المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے وفاق المدار س العربیہ پاکستان کی عاملہ کے اجلاس میں یہ الہامی تجویز پیش کی اور پھر عاملہ میں اسے فیصلے کی شکل دے کر ملک بھر کے مدار س کے نام ہدایت جاری کی گئی کہ 16نومبر بروز بدھ دن گیارہ بجے سے ایک بجے تک ملک بھر کے دینی مدارس میں شعبہ حفظ کی درسگاہیں بند کمروں اور مساجد ومدارس کے بجائے کھلے میدانوں ،عام شاہراہوں ،فٹ پاتھوں اور ایسے مقامات پر لگائی جائیں گی جہاں ہر کسی کی نظر پڑے ۔

واضح رہے کہ یہ محض احتجاج نہیں ہوگا بلکہ ایک دعوت ہوگی،عبادت ہوگی ،دعا اور مناجات کا اہتما م ہوگا، وطنِ عزیز کی سلامتی اور استحکام کے لیے ،امتِ مسلمہ کو درپیش حالات سے نجات کے لیے ، حرمین شریفین کی طرف بڑھتے ہوئے خطرات کی روک تھام کے لیے ،دینی مدارس کے تحفظ اور بقاء کے لیے پندرہ برس سے کم عمر بچے کھلی اور کشادہ جگہوں پر قرآن کریم کی تلاوت کی صدائیں بلند کریں گے۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں کے بچے کسی ایک مقام پر جبکہ بڑے شہروں میں متعدد مرکزی مقامات پر تلاوتِ قرآن کریم اور دعاؤں کا اہتمام ہو گا۔وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی طرف سے ملک بھر کے مدارس کے منتظمین کے نام ہدایات جاری کی گئی ہیں،ہرضلع اور ہر علاقہ کے مسؤولین کو ترتیب سمجھا دی گئی ہے اور اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ اس سرگرمی کے دوران عوام الناس کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ،راستے اور گزر گاہیں بند نہ کی جائیں ،بچے تلاوت قرآن کریم کا اہتمام کرتے ہوئے آئیں ،اپنی سیکیورٹی کا خیال رکھیں اور کوشش کریں کہ تلاوتِ قرآن کریم اور اجتماعی دعا کا یہ اہتمام اللہ رب العزت کی رحمت کے نزول کا باعث بھی بنے اور لوگوں کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کا ذریعہ بھی ثابت ہو ۔

یادش بخیر! ہمارے ہاں جامعہ خیر المدارس میں خادمِ قرآن، داعی قرآن حضرت مولاناقاری رحیم بخش پانی پتی ؒ صدر مدرس تھے ۔انہیں حسین آگاہی کی مسجد سراجاں میں امامت کے لیے جانا ہوتااور عصر سے عشاء تک کا وقت ان کا وہیں پر گزرتا۔ انہوں نے ہمارے دادا جی حضرت مولانا خیر محمدجالندھری ؒ بانی ومہتمم جامعہ خیر المدارس سے اجازت چاہی کہ وہ بچوں کو اپنے ساتھ لے جایاکریں اور عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر واپس لے آیاکریں لیکن دادا جی نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور فرمایا بچے بازار سے گزریں گے ،آنے جانے کی مشقت ہوگی ،بازار کی نحوست اثرا نداز ہو گی ،بدنظری ہوگی ،بظاہر دین کے طلباء کی بے اکرامی لگے گی اس لیے اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اس پر حضرت مولانا قاری رحیم بخش پانی پتی ؒ نے عرض کیا کہ میرا مقصد تشویقِ قرآن ہے ،میں چاہتا ہوں کہ ہر روز بازار سے تلاوت کرتے ہوئے گزرنے والے طلباء کو دیکھ کر لوگوں کو دعوت وترغیب ملے،اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا شوق بڑھے ،بچوں کی یہ آمد ورفت اللہ رب العزت کی رحمت کے نزول کا ذریعہ بنے اس پر حضرت مولانا خیر محمد جالندھری ؒ نے اجازت مرحمت فر ما دی ۔ ان کمسن بچوں کے ہر روز حسین آگاہی آنے جانے کی برکت سے کتنے ہی لوگوں نے اپنے بچوں کوحافظ اور عالم بنایا ،ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا اور کتنے ہی نامی گرامی علماء کرام ،قرآن کریم اور دین متین کے خادم ایسے ہیں جو حضرت مولانا قاری رحیم بخش پانی پتی ؒ کی اس چلتی پھرتی دعوت کے نتیجے میں قرآن کریم سے وابستہ ہوئے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ رئیس المحدثین صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کی یہ تجویز بھی پاکستان میں دینی مدارس کے حقیقی چہرے اور کردار وعمل کے اظہار کا ذریعہ بنے گی اور لوگوں میں یہ احساس بھی اجاگر ہوگا کہ قرآن کریم کی تعلیم اور تلاوت میں مصروف عمل ان معصوم بچوں کی تعلیم کا گلہ گھونٹنے کی کوششیں کس قد ر غیر دانشمندانہ ہیں اور ان کمسن بچوں پر الزامات واتہامات کی بوچھاڑ کس قدر احمقانہ طرزِ عمل ہے ۔

اس لیے امت مسلمہ کا درد ،وطنِ عزیز کی محبت اور دینی مدار س سے وابستگی رکھنے والے ہر فرد سے ہماری دردمندانہ اپیل ہے کہ 16نومبر کو ملک بھر میں ہونے والے اس مبارک عمل میں اپنے کمسن بچوں سمیت ضرور شریک ہوں اور اللہ رب العز ت کی ڈھیر ساری رحمتوں کے مستحق بنیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے