دہشت گردی کا جرم اور اسلامی قانون

بعض اہل علم نے یہ رائے پیش کی ہے کہ دہشت گردی کا جرم حرابہ کی تعریف میں داخل ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی کہتے ہیں:

”قانون کی خلاف ورزی کی ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی جرم صادر ہو جائے تو اس صورت میں اس کے ساتھ شریعت کے عام ضابطہ حدود و تعزیرات کے تحت کاروائی کی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینے کی کوشش کرے۔ اپنے شروفساد سے علاقے کے امن و نظم کو درہم و برہم کر دے، لوگ اس کے ہاتھوں اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی طرف سے ہر وقت خطرے میں مبتلا رہیں۔ قتل، ڈکیتی، رہزنی، آتش زنی، اغواء، زنا، تخریب ترہیب اور اس نوع کے سنگین جرائم حکومت کے لیے لاء اور آرڈر کا مسئلہ پیدا کردیں“۔

مولانا اصلاحی نے یہ رائے آیت حرابہ کی تفسیر کے ضمن میں پیش کی ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے قرار دیا تھا کہ رجم کی سزا زانی محصن کے لیے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں کے لیے ہے جو زنا کو عادت یا پیشہ بنائیں یا زنا بالجبر کا ارتکاب کریں۔ ان کے شاگرد جناب جاوید احمد غامدی نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے:
”محاربہ اور فسادفی الارض، یعنی اللہ اور رسول سے لڑنے اور ملک میں فساد بر پا کرنے کے معنی ان آیات میں یہی ہو سکتے ہیں کہ کوئی شخص یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے اور پوری جرأت و جسارت کے ساتھ اس نظام حق کو درہم بر ہم کرنے کی کوشش کرے جو شریعت کے تحت کسی خطہء ارض میں قائم کیا جا تا ہے۔ چنانچہ ایک اسلامی حکومت میں جو لوگ زنا بالجبر کا ارتکاب کریں یا بدکاری کو پیشہ بنالیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بد معاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و ناموس کے لیے خطرہ بن جائیں یا اپنی دولت و اقتدار کے نشے میں غریبوں کی بہو بیٹیوں کو سر عام رسوا کریں یا نظم حکومت کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا قتل و غارت، ڈکیتی، رہزنی، اغوا، دہشت گردی، تخریب، ترہیب اور اس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کریں وہ سب اسی محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرم قرارپائیں گے“۔

یہ رائے ایک نئی اپچ کہلائی جاسکتی ہے مگر، جیسا کہ ہم دوسرے مقام پر تفصیل سے واضح کرچکے ہیں، اس کو قبول کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی قانون کے پورے ڈھانچے کی از سر نو تعمیر کی جائے۔ پہیہ نئے سرے سے ایجاد کرنے کے بجائے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جس قانونی نظام کو مسلمان اہل علم نے صدیوں کی محنت سے تعمیر کیا اور اس کے اندرونی تضادات کے ختم کرنے کی جستجو کی، اس کے قانونی اثرات کی توضیح میں عمریں صرف کیں، اس کے اندر رہتے ہوئے دہشت گردی کے جرم کی جگہ اور حیثیت معلوم کی جائے۔

فقہاء نے جس طرح اسلام کا فوجداری قانونی نظام تعمیر کیا ہے اس کے مطابق فساد فی الأرض کی ایک خاص قسم کو ہی حرابہ کہا جاسکتا ہے۔ مولانا اصلاحی اور جناب غامدی کی آرا کو بنیاد بناتے ہوئے مشہور کیس ”بیگم رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان“ میں وفاقی شرعی عدالت نے زنا بالجبر کو حرابہ قرار دیا اور سوال اٹھایا:

”کسی کے مال پر ہاتھ ڈالنا اگر محاربے کی تعریف میں شامل ہے تو کسی کی عزت لوٹ لینا اس میں کیوں شامل نہیں ہوسکتا؟ آخر ایک انسان کے پاس عزت و عفت سے بڑا سرمایہ اور یوں کسی کی عصمت دری کرنے سے زیادہ فساد اور کیا ہوسکتا ہے؟“

عدالت نے یہاں عزت و عفت کو ”سرمایہ“ قرار دیا ہے۔ ادب اور بلاغت کے لحاظ سے یہ کہنا شاید مناسب بھی ہے اور جذبات کو اپیل بھی کرتا ہے، لیکن قانونی لحاظ سے اسے سرمایہ قرار دینے پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ مثال کے طور پر عدالت نے یہ بحث نہیں کی کہ اسے مال متقوم سمجھا جائے گا یا غیر متقوم؟ اگر غیر متقوم ہو تو اس کو حرابہ کے تحت کیسے لایا جاسکتا ہے؟ اور اگر متقوم ہو تو کیا یہ بھی ماننا پڑے گاکہ اس سرمائے کے اتلاف پر ضمان بھی عائد کیا جائے گا؟ اگر ہاں تو اس تقویم کا معیار کیا ہوگا؟ یہ اور اس طرح کے کئی سوالات اور بھی پیدا ہوتے ہیں اور عدالت کا یہ فیصلہ اندرونی تضادات کی ایک روشن مثال بن گیا ہے۔
ہم نے ایک دوسرے مقام پر تفصیل سے حدود جرائم اور سزاؤں کے نظام پربحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ حدود سزائیں تو صرف بعض مخصوص جرائم کی مخصوص سزائیں ہیں جو صرف اسی وقت دی جاسکتی ہیں جب وہ جرائم ایک مخصوص ضابطے کے تحت ثابت کیے جائیں۔ نیز ان جرائم کے سلسلے میں ملزموں کو بعض مخصوص اضافی رعایتیں حاصل ہوتی ہیں، جن کی بنا پر ان سزاؤں کا نفاذ شاذ و نادر ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہ سزائیں فقہاء کی تقسیم کے مطابق حقوق اللہ سے متعلق ہیں اور ان کے لیے ایک مخصوص قانون ہے۔ فرد کے حقوق پر عدوان کو فقہاء نے تعزیر کا نام دیا ہے اور اس کے لیے حدود کی بہ نسبت ہلکی شرائط رکھی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک نہایت محدود دائرے سے تعلق رکھنے والی سزائیں ہیں۔ وہ جرائم جن کا اثر چند افراد تک محدود نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کا ایک بڑا حصہ ان سے متاثر ہوتا ہے، بہ الفاظ دیگر جو فساد فی الأرض کا باعث بنتے ہوں، ان کو فقہاء نے ”حقوق الامام“ یعنی حکمران کے حقوق سے متعلق قرار دے کر ”سیاسۃ“ کے قاعدے کے تحت حکمران کو ان کے تدارک، سد باب اور ان کے لیے سزائیں تجویز کرنے کے اختیارات دیے۔ فی الحقیقت یہی سیاسہ کا تصور ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کے جرم کے خلاف شرعی قواعد کی روشنی میں مناسب قانون سازی کی جاسکتی ہے۔

علامہ ابن عابدین شامی اس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
فالسیاسۃ استصلاح الخلق بارشادھم الی الطریق المنجی فی الدنیا و الآخرۃ۔
(پس سیاسۃ سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا و آخرت میں نجات دینے والا راستہ دکھاکر ان کی اصلاح کی جائے۔ )
ابن نجیم نے یہی حقیقت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
و ظاھر کلامھم ھھنا أن السیاسۃ: ھی فعل شیء من الحاکم لمصلحۃ یراھا و ان لم یرد بذلک الفعل دلیل جزئی۔
(یہاں فقہاء کے کلام کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ سیاسۃ سے مراد حاکم کا وہ اقدام ہے جو وہ کسی مصلحت کی بنیاد پر اٹھائے خواہ اس مخصوص فعل کے لیے کوئی خاص نص نہ پائی جائے۔ )

یوں سیاسۃ کا تصور کا فی وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ تاہم بالخصوص فوجداری قانون کے حوالے جب اس اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہ سزائیں ہیں جو حاکم شرعی قواعد کی روشنی میں فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے مقرر کرتا ہے۔ اس قاعدے کے تحت حکمران کو صرف سزا دینے ہی کا اختیار حاصل نہیں ہے بلکہ جرائم کی روک تھام کے لیے بھی وہ مناسب احتیاطی اقدامات (preventive measures) اٹھاسکتا ہے۔ چنانچہ فقہائے احناف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے نصر بن حجاج کی مدینہ سے جلاوطنی کے اقدام کو بھی سیاسۃ قرار دیتے ہیں کیونکہ اگرچہ نصر نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا لیکن اس بات کا قوی اندیشہ وجود میں آگیا تھا کہ اس کے حسن کی وجہ سے کوئی خاتون فتنے میں پڑ جائے گی۔

تاہم یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ حکمران کا یہ اختیار مطلق نہیں ہے بلکہ اسے عدل کے متعلق اسلامی قانون کے قواعد عامہ کے تحت ہی اس اختیار کا استعمال کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اس کے اقدام کو سیاسۃ ظالمۃ قرار دیا جائے گا اور اس حکم کا ماننا جائز نہیں ہوگا۔ حموی کہتے ہیں:
السیاسۃ شرع مغلظ، و ھی نوعان: سیاسۃ ظالمۃ، فالشریعۃ تحرمھا، و سیاسۃ عادلۃ تخرج الحق من الظالم و توصل الی المقاصد الشرعیۃ، فالشریعۃ توجب المصیر الیھا و الاعتماد فی اظھار الحق علیھا۔ و ھی باب واسع۔

(سیاسۃ سخت سزا کو کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں: ایک سیاسۃ ظالمۃ جسے شریعت حرام ٹھہراتی ہے اور دوسری سیاسۃ عادلۃ جو ظالم سے مظلوم کا حق حاصل کرتی ہے اور مقاصد شریعت کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے، پس شریعت اس سیاسۃ پر عمل کو واجب ٹھہراتی ہے اور حق کے غلبے کے لیے اس پر انحصار کو لازم کرتی ہے۔ اور اس سیاسۃ کا باب بہت وسیع ہے۔ )
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند اہم جرائم کا تذکرہ کیا جائے جن کے لیے احناف سیاسۃً سزائے موت کے قائل ہیں۔
ایک یہودی کی سزائے موت کا ذکر روایات میں اس طرح آیا ہے:
ان یھودیا رضخ رأس جاریۃ فی أوضاخ فامر رسول اللہ ﷺ بان یرضخ رأسہ بین حجرین۔
(ایک یہودی نے ایک لونڈی کا سر پتھروں سے کچل دیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے۔ )
احناف کا موقف ہے کہ یہ سزا قصاص نہیں تھی کیونکہ قصاص کے اثبات کے لیے مجرم کا اقرار یا اس کے خلاف دو عینی گواہوں کی شہادت ضروری ہوتی ہے، جبکہ اس قتل کے مجرم کو سزا واقعاتی شہادتوں اور قرائن کی بنیاد پر سنائی گئی تھی۔ اسی لیے احناف قصاص میں کیفیت میں مماثلت ضروری نہیں سمجھتے۔ شمس الائمۃ سرخسی اس روایت کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

و تاویل الحدیث أنہ أمر بذالک علی طریق السیاسۃ، لکونہ ساعیا فی الأرض بالفساد، معروفا بذلک الفعل۔ بیانہ فی ما روی أنھم أدرکوھا و بھا رمق، فقیل لھا: أ قتلک فلان؟ فأشارت برأسھا لا۔ حتی ذکروا الیھودی فأشارت برأسھا أن نعم ۔ و انما یعد فی مثل تلک الحالۃ من یکون متھما بمثل ذلک الفعل معروفا بہ۔ و عندنا اذا کان بھذہ الصفۃ، فللامام أن یقتلہ بطریق السیاسۃ۔

(اور حدیث کی تاویل یہ ہے کہ آپ نے ایسا سیاسۃ کے طریق پر کیا کیونکہ وہ یہودی زمین میں فساد کا مرتکب تھا اور اس کے لیے معروف بھی تھا۔ اس کی وضاحت اس روایت میں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اس خاتون کو دیکھا تو اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی۔ تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا فلاں نے تمہیں قتل کیا؟ تو اس نے سر کے اشارے سے کہا کہ نہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس یہودی کا نام لیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے حالات میں اسی کا نام لیا جاتا ہے جو اس قسم کے کام کے لیے بدنام اور مشہور ہو۔ اور ہمارے نزدیک جب وہ اس صفت کا حامل ہو تو حاکم کو اختیار ہے کہ اسے بطریق سیاسۃ قتل کردے۔ )

لواطت کے جرم کو بھی امام ابوحنیفہ زنا کے بجائے سیاسۃ کے تحت لاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کا اس جرم کی سزا کی نوعیت پر اختلاف تھا۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ لواطت کے مرتکبین کو آگ میں جلایا جائے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ غیر محصن ہوں تو سو کوڑے دیے جائیں اور محصن ہوں تو رجم کیا جائے۔ جبکہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ کسی بلند مقام سے لڑھکایا جائے اور پھر پتھرمارے جائیں۔ اور سیدنا عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی کہ سب سے زیادہ بدبودار جگہ میں قید کیے جائیں یہاں تک کہ بدبو کی وجہ سے وہ مر جائیں۔
سرخسی امام ابوحنیفہ کے موقف کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں:
الصحابۃ اتفقوا علی أن ھذا الفعل لیس بزنا، لأنھم عرفوا نص الزنا، و مع ھذا اختلفوا فی موجب ھذا الفعل، و لا یظن بھم الاجتھاد فی موضع النص۔ فکان ھذا اتفاقا منھم أن ھذا الفعل غیر الزنا، و لا یمکن ایجاب حد الزنا بغیر الزنا۔ بقیت ھذہ جریمۃ لا عقوبۃ لھا فی الشرع مقدرۃ ، فیجب التعزیر فیہ یقینا۔ و ما وراء ذلک من السیاسۃ موکول الی رأی الامام، ان رأی شیئا من ذلک فی حق فلہ أن یفعلہ شرعاً۔
(صحابہ کا اس پر اتفاق ہوا کہ یہ فعل زنا نہیں ہے، کیونکہ وہ زنا کے نص سے واقف تھے اور اس کے باوجود اس فعل کی سزا میں ان کا اختلاف ہوا، اور ان کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نص کے ہوتے ہوئے اجتہاد کریں گے۔ پس ]ان کا [یہ]اختلاف[ ان کی جانب سے اس امر پر اتفاق ہوا کہ یہ فعل زنا نہیں ہے۔ اور زنا کی حد کا غیرزنا کی سزا کے طور پر دینا ممکن نہیں۔ پس یہ فعل ایسا جرم ہوا جس کے لیے شرع میں کوئی مقررہ سزا نہیں۔ لیکن اس میں سزا دینا یقینا ضروری ہے۔ اب اس سے آگے جو سیاسۃ ہے وہ حاکم کی رائے کے سپرد ہے۔ اگر وہ کسی حق میں ایسی کوئی رائے رکھے تو شرعاً اسے اختیار ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔ )
اسی طرح احناف کے نزدیک زانی غیر محصن کے لیے جلاوطنی کی سزا حد میں شامل نہیں ہے اور جن بعض روایات میں زانی غیر محصن کو جلاوطن کردینے کی سزا کا ذکر آیا ہے اسے وہ سیاسۃ پر محمول کرتے ہیں۔ بدایۃ المبتدی کے متن میں ہے:
و لا یجمع فی البکر بین الجلد و النفی الا أن یری الامام فی ذلک مصلحۃ، فیغربہ علی قدر ما یری۔
(غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں کوڑوں اور جلاوطنی کو جمع نہیں کیا جائے گا، الا یہ کہ اگر امام کو اس میں مصلحت نظر آئے تو وہ اسے جس مدت تک مناسب سمجھے جلاوطن کرسکتا ہے۔ )
اس عبارت کی شرح میں ہدایۃ میں اس طرح کی گئی ہے:
و ذلک تعزیر و سیاسۃ، لأنہ قد یفید فی بعض الأحوال، فیکون الرأی فیہ الی الامام۔ و علیہ یحمل النفی المروی عن بعض الصحابۃ رضی اللہ عنہم۔
(یہ جلاوطنی بطور تعزیر و سیاسہ کے ہوگی کیونکہ بعض حالات میں اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ پس اس معاملے میں حتمی فیصلہ امام کا ہے۔ اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے جلاوطنی کی جو سزا مروی ہے اسے اسی پر محمول کیا جائے گا۔ )
اسی طرح اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری طریقے پر مباشرت کی صورت میں دی جانے والی سزائے موت کو بھی احناف سیاسۃ قرار دیتے ہیں۔ یہی حکم عادی چور، جادوگر، داعی زندیق اور دیگر مفسدین کا ہے جن کے فساد کے خاتمے کے لیے اور لوگوں کو ان کے شر سے بچانے کے لیے انہیں سزائے موت دینا ضروری ہوجاتا ہے۔
ہماری رائے میں عرنیین، جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو وحشت ناک طریقے سے قتل کیا اور مال مویشی لوٹ کر بھاگ نکلے، کو دی جانے والی سزا بھی سیاسۃ ہی کی نوعیت کی تھی۔ پہلے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے، پھر ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں۔ اس کے بعد انہیں گرم صحرائی علاقے میں پھینک دیا گیا۔ پھر اسی حالت میں وہ سسک سسک کر مر گئے۔ اس سزا کو سیاسۃ قرار دینے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مجرموں کے اقرار یا ان کے خلاف دو عینی گواہوں کی شہادت کے بجائے واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر یہ سزا دی گئی تھی۔ نیز ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کے بعد ان کے بار بار مانگنے کے باوجود ان کو پینے کے لیے پانی نہیں دیاگیا، نہ ہی ان کے زخموں کی مرہم پٹی کی گئی۔ مزید برآں، قصاص میں کیفیت میں مماثلت ضروری نہیں ہے
پس دہشت گردی کے جرم سے نمٹنے کے لیے مسلمان حکمران کو سیاسۃ کے قاعدے کے تحت قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وہ شرعی قواعد اور ضوابط کا خیال رکھے گا کیونکہ اگر اس نے ان حدود سے تجاوز کیا تو وہ سیاسۃ ظالمۃ کا مرتکب ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے