شدت پسندی کا خاتمہ کیسے ہو ؟

پاکستان ہر وقت سیاسی طور پر ہنگامہ خیزیوں میں گھرا رہتا ہے ۔اگرچہ سیاسی مخالف عمومی طور پر جمہوری روایات کے مثبت اظہار کے طور پر دیکھی جاتی ہے لیکن پاکستان میں گزشتہ عرصے میں کچھ واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جنہوں نے عوام، ریاستی اداروں اور پالیسی سازوں کی قوت کو سلب کر لیا ہے ۔

سیاسی ہنگامہ خیزی کا ماحول کئی اہم امور سے ہماری توجہ ہٹا دیتا ہے ۔اس کا اندازہ گزشتہ عرصے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا جائزہ لینے کے بعد ہوا ۔اس دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن پر وہ توجہ نہیں دی گئی جو ان کا استحقاق بنتا تھا۔ مثال کے طور پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تلخ ماحول ، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کشیدہ صورتحال ،چین پاکستان اقتصادی راہداری پر صوبوں کے تحفظات ،کراچی اور کوئٹہ میں دہشت گرد حملے اور ان کو روکنے میں سیکورٹی اداروں کی کمزوری ،سول ملٹری تعلقات اور ملک کی داخلہ وخارجہ پالیسیوں پر ان کے اثرات ، یہ چند موضوعات ایسے تھے جوہماری توجہ کے محتاج تھے ۔

میڈیا حکومت پر دشنام طرازی کر کے سنسنی خیزی کا ماحول پیدا کرتا ہے اس لئے وہ انسداد دہشت گردی کی خاطر تشکیل پانی والی قومی حکمت عملی پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر سکا ۔جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی CVE پر ہم کوئی مباحثۃ نہیں کروا سکے ۔ حالنکہ اس وقت دنیا کی نظریں ہم پر ہیں کہ ہم انسداد دہشت گردی کے لئے کیا اقدامات اٹھاتے ہیں ؟

میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی NACTAنے پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے لئے مجوزہ حکمت عملی تشکیل دینے کا بیڑہ اٹھایا جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی قومی سلامتی ، عوام کی مستعدی ، میڈیا کی شمولیت ، ثقافت کے فروغ ، تعلیمی اصلاحات ، عسکریت پسندوں کی اصلاح اور انہیں دوبارہ معاشرے کا کار آمند فرد بنانے سے عبارت ہو گی۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ حکومت نیکٹا کی جانب سے سامنے آنے والی سفارشات پر کس حد تک عمل کرے گی نہ ہی یہ معلوم ہو سکا ہے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے لئے کسی باقاعدہ پالیسی کے اعلان میں بھی دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں ۔ کیونکہ یہ سفارشات ایسی ہیں کہ جن پر عمل در آمد سے حکومت کو سیاسی طور پر نقصان ہو سکتا ہے ۔ اسے پہلے ہی حکومت کو احتساب کے معاملے پر حزب اختلاف کی جانب سے کڑی تنقید کا سامنا ہے ۔جے یو آئی (ف) جس کی اکثریت دیو بندی اور روایتی مذہبی طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور جو حکومت کی سب سے بڑی اتحادی بھی ہے اسے تعلیمی اصلاحات ، اور مدارس کے معاملے پر شدید تحفظات ہو سکتے ہیں ۔ حکومت کی دوسری بڑی اتحادی جماعت اسلامی ہے جو ہمیشہ سے ہی ریاست کی تعلیمی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں رہی ہے اور تعلیمی شعبے پر اس کی اچھی خاصی اجارہ داری بھی ہے وہ بھی ان سفارشات پر اپنا وزن جے یو آئی کے پلڑے میں ڈال سکتی ہے ۔

اشرافیہ کی اپنی ہی ایک دنیا اور ترجیحات ہیں ۔اپنی اتھارٹی کے تحفظ اور ‘‘سٹیٹس کو ’’ کو برقرار رکھنے کے لئے وہ بھی کوئی انقلابی قدم اٹھانے کے حق میں قطعانظر نہیں آتی اور نہ ہی یہ چاہے گی کہ وہ قومی سلامتی کے امور پر نظر ثانی کرے یا اس میں کوئی تبدیلی لائے ۔ نیکٹا کی سفارشات میں سے ایک نقطہ یہ بھی ہے مگر یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وقتی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر پوری تندہی سے ا س مسئلے کو مخاطب نہ کیا جائے ۔

دنیا بھر میں انسداد دہشت گردی کے جو نمونے رائج ہیں ان کے تین اہم حصے ہوتے ہیں ۔اہل فکر و نظر کی جانب سے شدت پسند نظریات کا جواب، تعلیمی اصلاحات اور ثقافت کااحیا،عسکریت پسندوں کی اصلاح اور انہیں معاشرے کا کار آمد شہری بنانا ، مذہبی اور نسلی تنوع رکھنے والی قوموں کی جانب سے شدت پسند بیانئے کی مخالفت ۔

جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے اس کے لئے سب سے اہم انسداد دہشت گردی کے لئے فکری چیلنج ہے ۔کیونکہ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ روایتی مذہبی خیالات کی بیخ کنی نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے عقائد سے نفرت جنم لیتی ہے جو آگے جا کر فرقہ واریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہب کے سیاسی پہلو اور مذہبی تصورات کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اس عمل میں مجموعی طور پر ریاست اور معاشرے کو بھی شامل کیا جائے ۔

ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ عسکریت پسنندی کے پیچھے جو بیانیہ ہے اس کی جڑیں مذہبی فکر یا پھر اسلام کی مخصوص توجیح میں پیوست ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے فکری اور شرعی سطح پر ان بیانیوں کا جائزہ لیا جائے اورپھر اسی تناظر میں ان کا جواب دیا جائے ۔یہ کوئی آسان عمل ہر گز نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے مسلسل تحقیق اور فکری مشقوں کی ضرورت ہو گی جس کی صلاحیت ہمارے عمومی اور مذہبی تعلیمی اداروں میں نہیں ہے ۔ریاست کو انسداد دہشت گردی کے لئے ایک متحرک تحقیقی ادارے کی ضرورت ہو گی جس کو متعلقہ شعبوں بالخصوص سماجی اور مذہبی علوم کے ماہرین کی خدمات میسر ہوں ۔

حکومت نئی ثقافتی پالیسی پر بھی کام کر رہی ہے مگر یہ کام کس مرحلے پر ہے ابھی تک کچھ نہیں معلوم ،لکین جب یہ منظر عام پر آ جائے گی توپالیسی سازوں کو اس سے بھی رہنمائی ملے گی ۔اس پالیسی سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ ثقافتی پالیسی ایسی پاکستانی ثقافت زور دیتی ہے جو متنوع ثقافتوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہو تاکہ مقامی ثقافتیں بھی قومی ورثے کا درجہ پا سکیں ۔

انسداد دہشت گردی کے لئے سب سے مشکل کام تعلیمی اصلاحات کا ہے کیونکہ نصاب سازی کے مروجہ اصولوں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی ۔اگرچہ اس سلسلے میں بہت سارا فکری کام ہو چکا ہے تاہم مستقل طور پر تحقیقی اداروں کے قیام کی ضرورت ہو گی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کا اہم مقصد تنقیدی سوچ کو پروان چڑھانا ہوتا ہے ۔تمام سکول چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری یا پھر مدارس ہوں ان میں شہریت کا مضمون لازمی قرار دیا جائے تاکہ طلبا کو معلوم ہو سکے کہ ایک اچھے شہری کے لئے کیا مثالی اوصاف ہونے چاہئیں اور آئین و قانون کی پاسداری کیوں ضروری ہے ۔

انسداد دہشت گردی کے لئے ملک کے داخلہ سیکورٹی نظام میں اصلاحات لا نا ہو ں گی ۔جغرافیائی ترجیحات کا براہ راست تعلق ملک کی داخلی صورتحال سے ہے اس لئے آئین کے آرٹیکل 256 پر عمل در آمد کویقینی بنایا جائے جو پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے قیام اور ان کے مسلح ہونے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے افراد یا گروہوں پر بھی نظر رکھی جائے جو معاشرے میں شدت پسند نظریات کو فروغ دیتے ہیں ۔اس سلسلے میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر اقدامات اٹھائے جائیں ۔

نسلی و سیاسی ،سماجی و ثقافتی اور مذہبی معاملات کے حوالے سے پاکستان بہت ہی غیر معمولی حالات سے دوچار ہے اس لئے آئین کے تقدس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے آئین ایک مکمل سماجی عہد نامہ ہے جن پر مختلف مکاتب فکر کا اجماع ہے ۔ریاست اور معاشرے دونوں کو ا س سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے ۔یہ دستاویز ملک کے مثبت بیانئے کا اہم جزو ہے اس لئے آئین کی تدریس کو بتدریج نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔

یہ صرف چند ایک معروضات ہیں ماہرین اور دوسرے لوگ شاید اس میں کچھ اضافہ اور رہنمائی فراہم کرسکیں ۔حکومت کو کوئی ایساضابطہ بناناہو گا کہ وہ ایسی تجاویز اور معروضات کو مجتمع کر سکے ۔

بشکریہ : تجزیات آن لائن ، حالات حاضرہ اور اہم موضوعات پر تبصرے پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کیجئے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے