ہیلری کی شکست یاصنفی امتیاز

ہیلری کی شکست امریکہ میں بسنے والے لوگوں کی سوچ کی عکاس ہے لہذا گمان کیا جا سکتا ہے کہ یہاں کی عوام سوچ کے لحاظ سے کسی طور آزاد نہیں ، ایک خاتون کو بطور حکمران قبول کرنا ان کے ہاں بھی منظور نظر نہیں،شائد اسی لئے یہ لوگ اب بھی خاتون کی ماتحتی کے قائل نہیں۔ ایک شخص جس کے بیانات خواتین کے لئے انتہاپسندانہ تھے اسے امریکی عوام نے منتخب کرلیا اور ایک خاتون امیدوار کو مسترد کردیا ۔ اس تاریخی الیکشن کے فیصلے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا جس میں سے ایک سنجیدہ سوال یہ ہیکہ ایک خاتون امریکہ کی صدر کیوں نہیں بن سکتی ؟؟؟؟ جبکہ دوسری جانب مغرب ہمیشہ پرالزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کااستحصال کیا جاتا ہے اور انہیں یہاں آزادانہ نقل و حرکت میں بھی مشکلات کا سامنا ہےجبکہ حقیقت اس کے عین بر عکس ہے۔،،

پاکستان میں ساٹھ کی دہائی میں ایک خاتون صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئی تھی اور پھر 80 کی دہائی میں بے نظیر بھٹووطن عزیز کی پہلی خاتون وزیراعظم بنتی ہے اور پھر وہ ہی خاتون دوسری بار بھی وزیراعظم بنی جبکہ امریکی عوام نے پہلی بار میں ہی خاتون امیدوار کو مسترد کر دیا ۔۔!! امریکہ میں جہاں خواتین کے مساوی حقوق کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں وہاں انیس سو بیس تک خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق تک حاصل نہیں تھا انیس سو بیس کے بعد سے اب تک کوئی خاتون صدر کے الیکشن تک نہیں پہنچ سکی تھی اب جبکہ ایک صدی بعد ایک خاتون اس مقام تک پہنچی تو امریکی عوام نے اسے مسترد کر کے یہ بات ثابت کردی کہ کہ امریکیوں کے ہاں بھی عورت حکمرانی کے قابل نہیں۔۔!!

امریکہ میں صنف نازک تاحال مسائل کا شکار ہے یہاں آج بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک رواں رکھا جاتا ہے ۔ نام نہاد آزادی اور حقوق نسواں کا علمبردار امریکہ نسل پرستی اور صنفی امتیاز میں کسی طور پیچھے نہیں ہے ۔یہ فرق اور ظلم وستم کسی رنگ ، نسل معاشرے یا نظریئے کی حدتک محدود نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک جو ساری دنیا کو انسانیت ، تہذیب اور برابری کا درس دیتے ہیں انہی کے ہاں خواتین پر ظلم و ستم کی شرح باقی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔۔!! امریکہ میں عورتوں کی حالت زار کے متعلق نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک لڑکی جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے ان میں سے ایک تہائی خواتین کو زیادتی کے دوران تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتاہے،، اس رپورٹ کے مطابق ہر سال 13لاکھ امریکی خواتین جنسی زیادتی کا شکارہوتی ہیں ان میں سے 12فیصد لڑکیوں کو اس وقت ذیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جب ان بچیوں کی عمر 10سال سے بھی کم ہوتی ہے

ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال کالج جانے والی ہر چار میں سے ایک لڑکی پر جنسی حملہ کیا گیاجبکہ 27فیصدکالج خواتین کو ہراساں کیا گیا اور ایک سروے کے مطابق ہر 16میں سے 15زیادتی کے نشانے بنانے والے مجرم آزادانہ گھوم رہے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی سزا دی گئی ۔گزشتہ 15سالوں میں امریکہ کی 13ہزار سے زائد خواتین کو ان کے موجودہ یا سابقہ( شوہر کہنا غلط ہو گا کیونکہ یہ لوگ تو بغیر شادی کے ساتھ رہتے ہیں )پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہونا پڑا اسی ترقی یافتہ دیس میں ہی تقریبا 5کروڑ خواتین ہر سال اپنے پارٹنر کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائی جاتی ہے جبکہ ہر 3میں سے ایک امریکی عورت کو اس کا شوہر تشدد کا نشانہ بناتا ہے جبکہ ہر روز خواتین کے حقوق پامال کئے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتاہے ۔

ابھی حال ہی میں سچی کہانی پر مبنی ایک فلم ” The General’s Daughter ” دیکھنے کا اتفاق ہوا اس فلم میں جس طرح ایک امریکی فوجی خاتون کے حقوق پامال ہوتے دکھائےگئے اور کس طرح اس کے باپ نے عہدے کی خاطر اپنے آپ کو خاموش رکھا اس کا اندازہ آپ کو فلم دیکھنے کے بعد ہی ہوگا ۔عورتوں اور مردوں کے مساوی حقوق کا راگ الاپنے والے امریکہ میں اس وقت کام کرنے والی خواتین کا معاوضہ مردوں سے کم ہیں ،،یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری ہالی وڈ میں کام کرنے والی اداکارؤں کا معاوضہ بھی مرد اداکاروں سے بہت کم ہے۔

آج خاتون امریکی امیدوار کی شکست پر مہم میں شامل خواتین ہی آنسو بہاتی نظر آتی ہیں جبکہ یہاں کے مرد حضرات جشن مناتے نظر آرہے ہیں ،دوسری جانب امریکی کانگریس میں بھی خواتین کی نمائندگی مردوں کی نسبت کم ہے ۔امریکن خواتین بہت پر امید تھی کہ اس بار ان کی نمائندگی تسلیم کی جائے گی مگر افسوس کہ امریکن ایوان صدر میں ان کے اندر کے احساسات اور جذبات نتائج آنے کے بعد ان کے آنسو ؤں میں یکسر دُھل گئے ہیں۔ اگر چہ امریکی سیاست میں امریکی خواتین ہمیشہ سے متحرک رہی ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی خواتین کو کلیدی عہدوں سے آج تک دانستہ دور رکھا گیا ہے جس کی زندہ مثال حالیہ الیکشن میں بین الاقوامی شہرت کی حامل ایک متحرک خواتین کی شکست ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے