حکومتی ٹیم قوم کو گمراہ کررہی ہے.

بنی گالہ میں پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ متنازعہ خبرکے معاملے پروزیرداخلہ کہہ چکے ہیں کہ 24 گھنٹے میں تفتیش کریں گے۔لیکن ابھی تک انہوں نے معاملے کی تہہ کانہیں بتایا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو حکومتی کی بنائی گئی کمیٹی پرریٹائرڈ جج کے باعث تحفظات ہیں۔ہم سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج پر مشتمل کاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔تمام اپوزیشن اس کمیشن کو مسترد کرچکے ہیں۔ہمیں عدالت عظمی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں ۔جسٹس ریٹائرڈ رضا کے شریف فیملی کیساتھ قریبی مراسم ہیں۔اور ان کی بیٹی شریف میڈیکل کمپلیکس میں کام کرتی ہیںدیگر جماعتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ متنازعہ خبرکے معاملے پراعتزازاحسن سے تفصیلی بات ہوئی ہم نے انہیں مل کر تحریک چلانے کا کہا ۔

اعتزازاحسن نے قیادت سے بات کرنے کے لیئے وقت مانگاہے۔متنازعہ خبرکے معاملے پرامیر جماعت اسلامی سراج الحق اور ق لیگ کے کامل علی آغاسے بھی بات ہوئی۔کہا جا رہا ہے کہ ہم اس پر سیاست کر رہے ہیں۔ ہم اس متنازعہ خبرکے معاملے پرکوئی سیاست نہیں کررہے۔اگرہم متنازعہ خبرکے معاملے پر سیاست کررہے ہیں توحکومت کیاکررہی ہے۔کورکمانڈرزکانفرنس میں بھی متنازعہ خبرپربات چیت ہوئی اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی تحفظات کااظہارکرچکے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی ٹیم مسلسل جھوٹ بول رہی ہے اور تسلسل کے ساتھ قوم کو گمراہ کر رہی ہے۔

لیکن ہم عوام کے سامنے حقائق اور ثبوت پیش کرینگے۔۔ پاناما لیکس پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پپاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔بدقسمتی سے حکومتی وزرا اور انکے وکلا جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ ہم انکا اصلی چہرہ قوم کے سامنے لیکر آئیں ۔سرکاری میڈیا اور حکومتی اہلکار تاثر دے رہے ہیں کہ تحریک انصاف کوئی ٹھوس شواہد دینے میں ناکام ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کا سارا کاروبار مشترکہ ہے اور تانے بانٹ جڑے ہوئے ہیں ۔ اور یہ کہانی  2005 سے پہلے شروع ہوچکی تھی۔مریم صفدر خود تسلیم کرچکی ہیں کہ وہ اس کاروبار کو چلا رہی ہیں ۔ہم نے 327 صفحات پر مشتمل ثبوت پیش کئے۔روز اول سے کہہ رہے ہیں اس میں شریف فیملی ملوث ہیں۔ حکومتی جواب میں 337 صفحات میں سے 200 صفحات تحریک انصاف کے ریفرنس کے ہیں۔ہم پانامہ لیکن اور خبر لیکس معاملہ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ جو فیصلہ آئے گا اسے تسلیم کریں گے۔سوموار تک مزید شواہد سپریم کورٹ میں جمع کرائیں گے۔ مرکزی رہنما اور رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے بھی بات کرتے ہوئے بتایا کہ مریم نواز نے خود ایک اینکر کو فون کرکے بتایا کہ وہ زیرکفالت ہیں۔ مسلم لیگ نون کے افلاطون کہتے تھے کہ وہ اکیلی کاروبار کی مالک ہیں۔حقیقت میں مریم نواز اکیلی کاروبار نہیں چلا رہی ۔مریم نواز نے ٹی وی پر اس جائیداد اور کاروبار سے انکار کیا تھا۔مریم نواز کی ٹیکس ریٹرن میں انکی آمدنی کا حصہ بہت کم بنتا ہے۔

2011 میں مریم نواز نے اخراجات 22 لاکھ سے بھی کم ظاہر کئے تھے۔ اسد عمر نے ثبوتوں کی کتاب پیش کردی اور کہا کہ یہ تمام ثبوت عدالت میں پیش کئے جاچکے ہیں۔ اس رپورٹ میں 54 صفحات مریم نواز کے ٹیکس ریٹرن شامل ہیں۔نواز شریف نے نو ملین ڈالر پر کیا ٹیکس دیا سپریم کورٹ میں اس سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ہمیں خطرہ ہے کہ یہ 15 نومبر کو بھی عدالت سے وقت ہی مانگیں گے۔ تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین نے بتایا کہ حدیبہ پیپرز ملز کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں کلثوم نوازشامل ہیں۔وزیراعظم کے بیٹوں میں سے بھی ایک حدیبہ پیپرز مل کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں شامل ہے۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف بھی حدیبہ پیپرز سے اتنا ہی فائدہ حاصل کررہے ہیں جتنا کہ شہباز شریف۔شریف خاندان مل کر کاروبار کرتا ہے۔انہوں نے کہا مریم نواز اثاثوں کے مطابق تو سفر کا خرچ بھی برداشست نہیں کرسکتیں۔

وہ بھائی کے تحفوں سے اپنے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ متعدد کمپنیوں کے ثبوت دے چکے ہیں باقی کے بھی دیں گے۔2001 میں ان کے پاس اربوں روپے تھے لیکن ظاہر نہیں کئے۔نواز شریف نے ایوان میں تسلیم کیا کہ انکی فیملی یہ تمام کاروبار چلا رہی تھی۔نواز شریف نے کبھی بھی خود کو اپنے خاندان سے الگ نہیں رکھا۔التوصیف کی ججمنٹ میں بھی واضح ہوچکا ہے ۔ اس قدر تضادات ہیں ۔ کلثوم نواز نے کہا کہ لندن میں فلیٹس بچوں کی تعلیم کے لئے کئے گئے۔چوہدری نثار کہہ چکے ہیں کہ یہ جائیداد انھوں نے 20 سال قبل خریدی تھی۔مریم نواز خود کفیل نہیں ان کا انحصار نواز شریف اور دیگر خاندان پرہے یہ ثابت ہوچکاہے۔ 2001 سے 2005 تک شریف خاندان نے سات کمپنیاں بنائی ہیں۔15 نومبر کی سماعت میں مکمل جواب سپریم کورٹ میں جمع کرائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے