1916 سے 1947 کے دوران کیا ہوا تھا؟؟؟

برصغیر کے لئے1857 اور 1947 کا درمیانی وقت بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دوران مسلمانان ہند اور ہندووں نے کیا فیصلے کئے یہ بڑی اہم بحث ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور انکے فیصلوں پر تنقید کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ تاریخ کے اوراق کو دوبارہ کھولا جائے اور دوبارہ، چھان بین کی جائے کہ اس وقت ہوا کیا تھا۔

اس سارری صورتحال میں ایک سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ یہ کہ 1916 سے 1947 کے دوران ایسا کیا ہوا کہ وہی محمد علی جسے عظیم قائد اور عظیم قوم پرست کے نام سے لوگ جانتے تھے۔ وہ ہندوستان کے دولخت ہونے کا موجب بنا اور کیا واقعی ہی، قائد اعظم نے اس ہندوستان کے دو ٹکڑے کئے یا کہانی کچھ اور ہے؟

1857 کے بعد سب سے اہم پیش رفت جو ہندوستان میں ہوئی وہ، 1885 میں انڈیا نیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالنا تھا۔ دسمبر 1904 میں محمد علی بمبئی میں ہونے والی کانفرنس میں شمولیت اختیارکرتے ہیں، محمد علی نے سیاست کا باقاعدہ آغاز یہیں سے کیا اس سے پہلے وہ سیاسی طور پر سرگرم تھے لیکن یہی محمد علی کے سیاسی سفر کا پہلا سٹیشن تھا جہاں سے انہوں نے سفر کا آغاز کیا۔

جناح، اس وقت ملک پرست قوم پرست آدمی تھے۔ انکی قوم پرستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سر سلطان محمد شاہ جنہیں آغا خان (یہ وہی ہیں جنہیں بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اعزازی صدر بھی بنایاگیا تھا) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انکی صدارت میں ایک وفد جب اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے گورنر جنرل جسے ویکوریسی اینڈ گورنر جنرل آف انڈیا کہا جاتا تھا سے ملنے گیا۔ جو اس وقت لارڈ منٹو (گلبرٹ جان ایلٹ مرے) تھے، ان سے ملنے گیا۔ اس وفد نے سرکار کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضمانت چاہی کہ انہیں کسی بھی قسم کی سیاسی تبدیلی میں ظالم ہندو سماج سے بچایا جائے گا۔ اس وقت محمد علی نے گجراتی اخبار کے ایڈیٹر کے نام ایک خط لکھا اور کہا کہ اس وفد کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بولتے پھریں۔ اسکے بعد 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد جب ڈھاکہ کے نواب کے احسان پیلس میں رکھی گئی تو محمد علی نے تب بھی اسکی مخالفت کی۔ 1912 میں محمدعلی نے مسلم لیگ کی سالانہ میٹنگ کو ایڈریس کیا، لیکن وہ اس وقت کانگریس کے بھی رکن تھے۔ اس وقت بھی انکے پہلی ترجیح، قومی مفاد تھی، جس پر انہوں نے مسلم لیگ پر بھی دباؤ ڈالا کہ اسے ہی پہلی ترجیح رکھا جائے۔

اپریل 1913 میں وہ کانگریس کے کہنے پر گوکہالے کے ساتھ برطانیہ کے اعلیٰ عہدیداران کو ملنے گئے۔ اس ہندو لیڈر نے جو الفاظ اس وقت محمد علی کے لئے استعمال کئے وہ کچھ یوں تھے۔
"has true stuff in him, and that freedom from all sectarian prejudice which will make him the best ambassador of Hindu–Muslim Unity”.
اس بات کا ذکر ساوتھ ایشین سٹیڈیز کا ماہر سٹینلے وپلٹ کرتا ہے۔

1915 کے اواخر تک وہ موہن داس کرم چند گاندھی سے ایک ملاقات کرچکے تھے۔ یہ دور پہلی جنگ عظیم کا دور تھا۔ لیکن اسکے بعد کانگریس سے دوری بننا شروع ہوچکی ہوتی ہے یا بن چکی ہوتی ہے۔

1916 میں ایک اہم پیش رفت ہوتی ہے یہ وہ دور ہے جس میں محمد علی نے اپنی کوششوں سے آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کو قریب لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اور یہ وہ وقت ہے جب محمد علی کا سارا زور اس بات پر لگ رہا ہوتا ہے کہ کسی طرح ہندوستان کو متحد کرکے، اسے انگریزوں سے آزاد کروایا جائے۔ اسی سلسلے کی کڑی وہ اہم پیش رفت ہے، جو دونوں پارٹیوں کے سالانہ جلسوں کے موقع پر ہوئی وہ لکھنو پیکٹ تھا۔ اس پیکٹ کی اہم گذارشات درج زیل ہیں:
There shall be self-government in India.
The same method should be adopted for the Executive Councils of Governors.
The Indian Council must be abolished.
The salaries of the Secretary of State for Indian Affairs should be paid by the British government, not from Indian funds.
The executive should be separated from the judiciary.
The number of Muslims in the provincial legislatures should be laid down province by province.
Muslims should be given 1/3 representation in Central Govt.
There should be separate electorates for all communities until they ask for joint electorate.
System of weight-age should be adopted.
Term of Legislative Council should be 5 years.
Half of the members of Imperial Legislative Council must be Indians.

1919 سے 1918 کے درمیان، انڈین ہوم رول مومنٹ کا آغاز کیا جاتا ہے جسکا مقصد اپنے راج کو واپس لانا ہوتا ہے۔ اسمیں اہم شخصیات جوزف بیٹسٹا، محمد علی، بال گنگہ دہار تلک جیسے اور بھی لوگ شامل تھے۔ اور اس مومنٹ کا بیڑہ غرق گاندھی کردیتے ہیں جنہیں 1920 میں اسکا صدر منتخب کیا جاتا ہے تو اسے انڈین نیشنل کانگریس میں شامل کرکے اسکا وجود ختم کردیتے ہیں۔

1919 میں جب امرتسر میں برطانوی فوجی ظلم ڈھاتی ہے تو گاندھی کی آواز پر لبیک کہنے والے صرف ہندو طبقہ کے لوگ نہی ہوتے بلکہ مسلمان ایک بڑی تعداد میں اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ دور خلافت عثمانیہ کی زبوں حالی دور بھی تھا۔ تو اس دور میں، مسلمان اور ہندوستان مفادات کی خاطر شیر و شکر ہو گئے۔ اس دوران گاندھی نے بہت مقبولیت دونوں مسلم اور ہندو حلقہ جات میں مقبولیت حاصل کرلی تھی۔

1920 میں ہی محمد علی کانگریس اور گاندھی کے اس رویہ سے دلبرداشتہ ہوچکے تھے۔ گاندھی اور کانگریس اپنی من مانی کئے چلے جا رہی تھی۔ محمد علی نے گاندھی کی خلافت کے حق میں باتوں کو اور اسکے ساتھ ساتھ اس نے جو ایک کمپئن چلا رکھی تھی ستیاگھرا چاریہ کیمپئن، کی بڑے سخت انداز میں مخالفت کی لیکن جوشیلے ہندووں نے انکی ایک نہ سنی۔ ناگ پور میں گاندھی کے ماننے والوں نے، محمد علی کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ کیا، اور انہوں نے اس ستایہ گھراچاریہ تحریک کو تب تک چلانے کا ارادہ کیا جب تک انڈیا آزاد نہ ہوجاتا، لیکن محمد علی اسکے برعکس ابھی تک اس بات کے حق میں تھے کہ آئینی طریق ہی بہترین طریق ہوسکتا ہے۔ یہ شائد پہلا موقع تھا جہاں قائد کو کانگریس کے لیڈر ہوتے ہوئے مسلمانوں کی حالت کا احساس ہوا ہوگا۔ بہرحال انہوں نے اسکے بعد تمام سیٹوں سے استعفیٰ دے دیا سوائے مسلم لیگ کے۔

اسکا یہ مطلب ہر گز نہ ہے کہ محمد علی کو مسلمانوں کو کوئی دکھ درد نہ تھا۔ یہ سووراج اور خلافت موومنٹ کو جب گاندھی نے اکھٹا کیا تو محمد علی ساتھ تھے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے اکھٹے اجلاس ہوئے جس میں محمد علی نے کہا کہ
"“First came the Rowlatt Bill — accompanied by the Punjab atrocities — and then came the spoliation of the Ottoman Empire and the Khilafat. One attacks our liberty and the other our faith…”

لیکن جیسے ہی گاندھی نے دوبارہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا چاہی تو قائد نے تحریک خلافت کو محمد علی برادرز کے ہاتھ میں دے دیا۔

ناگ پور کے سیشن میں واحد شخصیت محمد علی تھے جنہوں نے بڑی بہادری سے بات کی اور کہا
“… the weapon will not destroy the British empire… it is neither logical nor is it politically sound or wise, nor practically capable of being put in execution.”
کرنل ویڈ گڈ جب یہ تقریر سنتا ہے تو وہ اس پر کمنٹ کرتا ہے
“I do not know enough about Mr. Jinnah’s politics to say whether I agree with him or not, but I do know that a man who has the courage to come to this audience and tell what he has told you is a man of my money. The first thing in every political leader is not brains, but courage.”

خلافت والوں اور گاندھی کا پیار محبت زیادہ دیر نہ چل سکا اور انکا رشتہ جلد ہی ٹوٹ گیا۔ لیکن اس موومنٹ کا جو پھل مسلمانوں نے کھایا وہ اتنا کڑوا تھا کہ اسکی کڑواہٹ آج بھی باآسانی محسوس کی جاسکتی ہے۔
یہی وہ دور تھا جب ہندوستان سے نوجوانوں کو اکسایا گیا،کہ وہ ہندوستان سے کوچ کرجائیں۔ جسکا انجام ہم سبکو معلوم ہے کہ وہاں سے ذلت اور رسوائی سے واپسی کے علاوہ کچھ ہی ہوا تھا۔

خلافت اور گاندھی کی محبت سے جنم لینے والی پرامن سول نافرمانی کی تحریک کو تب بند کرنا پڑا جب گورکھ پور تحصیل میں بھاری جانی نقصان اٹھا کر پرامن مظاہرین نے پولیس کے کئی لوگوں کو مار دیا۔ اس پرامن سول نافرمانی کی تحریک کے نیتجے میں اس سے پہلے تو کئی معصوم جانیں جا ہی چکی تھیں۔ لیکن اس خصوصی واقعی نے 228 لوگوں کو برطانوی راج کے ہاتھوں خالق حقیق سے ملوا دیا۔ اس واقعہ کے بعد اس تحصیل میں مارشل لاء لگایا گیا اور 228 لوگوں کو گرفتا کرکے اڑادیا گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب ابھی محمد علی، کسی بھی قسم کے دو قومی نظریے یا کسی بھی قسم کی ایسی بات جس سے یہ شائبہ بھی ہوتا ہو کہ آنے والے وقتوں میں یہ شخص متحدہ ہندوستان کے دو ٹکڑے کردے گا نہی کرتا معلوم ہوتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ محمد علی بہت کچھ سیکھ رہے تھے۔

جاری ہے۔ (تاریخی غلطیاں ممکن ہیں اگر کچھ محسوس ہو تو اصلاح فرمادیں)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے