مدرسہ اصلاحات: حکومت اور مدارس میں جھگڑا کیا ہے؟

2010 ء میں اٹھارویں ترمیم کے آنے سے جہاں مرکزی سطح پر بے شمار مسائل سامنے آئے ہیں وہیں پر صوبوں میں اختیارات کی تقسیم اور تضادات بھی واضح ہوئے ہیں جس میں تعلیم اور صحت ایک اہم مسئلہ ہے۔

پاکستان کے عصری نظام تعلیم میں پہلے سے جو تفریق و تقسیم موجود ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس کے ثمرات سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے یہ سب کے علم میں ہے ۔ ایک جانب صوبوں میں سرکاری سطح پر غیر معیاری نظام تعلیم ہے تو دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں جعلی اسکولوں اور تنخواہ دار اساتذہ کی بھی بھر مار ہے جو گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں ۔

پاکستان میں مذہبی درسگاہوں کی بھی ایک بڑی اور قابل ذکر تعداد موجود ہے تاہم اس کا نظام تعلیم بھی مسلکی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے ۔ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں مسلکی مدارس غیر سرکاری طور پر مختلف وسائل اور ذرائع سے چلتے ہیں جوکہ ایک بہترین این جی او کے خدمات انجام دے رہے ہیں مگر ان کے نصاب اور نظام تعلیم میں یک جہتی کی پالیسی کا فقدان اور فرقہ وارانہ مزاج اور اس کا اظہار سب کے سامنے ہے۔

2010 ءمیں دینی مدارس کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمواحمد غاز ی ؒ نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی بنیاد ڈالی تو مسلکی بنیاد پر قائم ہونے والے مدارس کے منتظمین نے اس سرکاری بورڈ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں کمزور ثابت ہوئی ۔

پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے مقابلے میں مسلکی بنیاد پر قائم کئے گئے پانچ مسلکی وفاق ہائے مدارس نے 2005 میں سیاسی اتحاد (ITMP)قائم کر لیا ۔ حکومت سے یہ مطالبہ پیش کیا کہ ہمیں مستقل بنیاد پر سرکاری بورڈ کا درجہ دیا جائے تاکہ ہم خود عصری امتحانات لے سکیں اور سند جاری کر سکیں۔

[pullquote]اس وقت پاکستان میں دینی نظام تعلیم کے تناظر میں دو مسائل انتہائی اہم اور توجہ کے طالب ہیں ، [/pullquote]

پہلی بات تو یہ ہے کہ 18 ویں ترمیم کے تناظر میں تعلیم صوبائی موضوع بن چکی ہے اور اس کے بعد قانونی طور پر کہیں بھی مرکزی سطح پر کوئی ایک بورڈ نہیں بنایا جا سکتا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان میں کہا جاتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو خاتمہ کرنا ہے اور دوسری جانب فرقہ وارانہ شناخت رکھنے والے مدرسوں کو کیلئے کیسے سرکاری سطح پر بورڈز بنا کر دیے جا سکتے ہیں ؟

اگرحکومت وقت کسی درجے میں سیاسی استحکام اور اپنی بقا کے لیے دینی مدارس کے موجودہ و فاقات کو صوبائی سطح پر بورڈز بنانے کے لیے تیار ہو بھی جائے تو پھر یہ ایک بورڈ نہیں بن سکے گا بلکہ پانچ معروف وفاقات کے25 بورڈ قائم ہونگے جن کے تحت 23 ہزار مدارس قائم ہیں ۔

اس وقت زرائع مطابق پاکستان میں گیارہ ہزار مدارس ایسے بھی ہیں جو کہ معروف پانچ مسلکی وفاقات سے الگ ہیں اور انہوں نے بھی چھوٹے چھوٹے بورڈز قائم کر رکھے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت کتنے مدارس اور کتنے وفاقات ہیں، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ دینی مدارس میں اسلام کی تعلیم دینے والے از خود کتنی تفریق و تقسیم کا شکار ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ دینی مدارس دین اسلام کی ترجمانی کرتے ہیں۔
وفاق المدارس ملتان سولہ ہزار ،
وفاق تنظیم المدارس کم و بیش دو ہزار،
وفاق المدارس سلفیہ چار ہزار،
وفاق المدارس الشیعہ چار ہزار مدارس،
رابطة المدارس جماعت اسلامی چار ہزار
جبکہ سید مودودی انٹر نیشنل انسٹیوٹ کے بھی چند دینی درس گاہیں ہیں۔
اسی طرح پانچ معروف وفاقات کے علاوہ پاکستان بھر میں
وفاق اتحاد المدارس،مردان تقریبا دو ہزار،
وفاق المعارف،ملتان تقریبا دو سو ساٹھ،
وفاق نظام المدارس رحیمیہ،بھاولنگرتقریبا ستر مدارس،
تبلیغی جماعت رائے ونڈ، لاہورتقریبا ایک سومدارس و مکاتب،
تنظیم اسلامی / قرآن اکیڈمی،لاہور تقریبا دومدارس اور دوتربیت گاہیں،
الہدیٰ انٹر نیشنل فاونڈیشن لاہورگیارہ تربیت گاہیں اورمدارس،
جہادی جماعت جماعت الدعوہ کی زیر نگرانی تقریبا پنتیس مدارس،
جہادی جماعت جیش محمد کے تین مدارس،
سابق جہادی لیڈر فضل الرحمن خلیل کے بھی تین مدارس
جبکہ کالعدم جماعت سپاہ صحابہ ،سپاہ محمد اورسنی تحریک کے بھی اپنے اپنے مدارس مختلف شہروں میں چل رہے ہیں جو اپنے مسلکی وفاقوں سے رجسٹرڈ نہیں ہوئے ۔
مزید یہ کہ سلسلہ نوربخشیہ کا مدرسہ شاہ ہمدان صوفیہ سکردو میں واقع ہے جس کے پانچ مدارس ہیں ۔

سلسلہ نقشبندیہ’مقصود العلوم اسلامی روحانی مشن کے کم و بیش7 تربیت گاہیں،
اسی طرح اشاعت التوحید والسنہ کی فکر کے مدارس بھی موجود ہیں ان میں بھی 4 سے 5 چھوٹے گروپوں نے اپنے مدارس قائم کر رکھے ہیں ۔
آئی بی سی کی تحقیق کے مطابق جمیعت اشاعت التوحید والسنہ،وفاق وحدت المدارس الاسلامیہ ،پنج پیر صوابی سے ایک ہزار سے زائد مدارس منسلک ہیں۔
جمعیت اشاعت التوحید والسنہ سرگودھا سے تقریبا سات ہزارمدارس،
جمعیت اشاعت التوحید والسنہ سرگودھا میں طالبات کے لیےالگ سے دو سالہ نصاب مقرر ہے جس کے بعد انہیں عالمہ کی سند مل جاتی ہے۔

جماعت اشاعت التوحید والسنہ اور جمعیت اشاعت التوحید والسنہ کے گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی تقریبا پندرہ سو مدارس شامل ہیں ۔

قومی ایکشن پلان اور اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں سب سے اہم سوال یہی سامنے آتا ہے کہ مذکورہ مدارس کو مسلکی اور نظریاتی بنیادوں پر حکومتی حیثیت میں بورڈز بنا کر دیے جا سکتے ہیں ؟

ایک اور حیرت انگیز انکشاف یہ بھی ہے کہ اب تک حکومتی سطح پر مدارس ریفارم پر اجلاس ومذاکرات ہوئے ہیں ان میں صرف پانچ معروف وفاقات کے نمائندوں ہی دعوت دی جاتی رہی ہے اور کسی ایک اجلاس میں بھی سرکاری مدرسہ بورڈ کے ذمہ دار کو نہ تو دعوت دی گئی اور نہ ہی ان کی رائے لی گئی۔ مزید گیارہ ہزار مدارس جو ملک بھر میں قائم ہیں ،ان میں سے کسی کو بھی کسی اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا ۔ آئی بی سی اردو نے جب اس سلسلے میں کچھ حکومتی شخصیات سے رابطہ کیا تو وہ مدارس کی مسلکی تقسیم کی گہرائی سمیت اس بات سے بھی ناواقف تھے کہ اتحاد تنظمیات مدارس کے علاوہ بھی ملک میں مدارس موجود ہیں اور یہ تنظیم تمام مسالک کے مدارس کی مکمل طور پر نمائندہ تنظیم نہیں ہے ۔

حکومتی سطح پر اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کا کوئی پیمانہ ہی نہیں اور ناہی حکومتی سطح پر یہ سوچ پائی جائی جاتی ہے کہ مدارس کے مسئلے کو کیسے حل کرنا ہے ؟

2010 میں اتحاد تنظیمات مدارس اور حکومت کے درمیان طے پایا جانے والا ایک رسمی معاہدہ جس میں طے ہوا تھا کہ اتحاد کے مدارس کو سرکاری سطح پر بورڈ بنا کر دیے جائیں گے اور یہ مدارس عصری تعلیم بھی دینے کے پابند ہونگے ۔ زرائع کے مطابق گزشتہ دنوں نیشنل کاونٹر ٹیرر ازم(نیکٹا)میں بھی چند اراکین کی جانب سے یہ سوال کو اٹھایا گیا کہ اس معاہدہ کی قانونی حیثیت کیا ہے جس پر بحث و تکرار کے بعد یہی نتیجہ سامنے آیا کہ اس معاہدہ کی قانونی کوئی حیثیت نہیں اور اسے کوئی بھی عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے۔

زرائع کے مطابق ان سب خدشات اور تحفظات سے بچنے کے لیے پیشگی حکمت عملی اور اپنے آپ کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے بچانے کے لیے دیوبندی مسلک کے بورڈ وفاق المدارس العربیہ ملتان نے یہ طے کر لیا ہے کہ اور وہ اب از خود چاروں صوبوں میں وفاق کے صوبائی دفاتر قائم کرے گی ۔ عصری نصاب بھی مدارس میں پڑھایا جائے گا ۔ وہ اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ مستقبل میں اٹھارویں ترمیم کے تناظر میں وفاق اگر صوبوں کو الگ الگ بورڈز بنانے کا اختیار دے دے تو پھر کیا ہوگا ؟ مدارس تا حال اس قسم کے کسی فیصلے کو ماننے کیلئے باسانی تیار نہیں ہوں گے ۔جبکہ زرائع کے مطابق کہ اتحاد تنظیمات مدارس کے ساتھ دیگر چار وفاق المدارس اس معاملے کے کلی طور پر حق میں نہیں ہیں اور یہ فیصلہ صرف دیوبندی مسلک کے وفاق المدارس کا ہے۔

ایک جانب حکومت مذہبی شدت پسندی اور انتہاء پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے تاہم گذشتہ دو برس کے دوران محض رسمی اجلاسوں کا انعقاد تو کیا گیا لیکن اس سلسلے میں کوئی پالیسی نہیں بنائی جا سکی ۔ مدارس اصلاحات کا نعرہ محض ایک شور کے سوا کچھ نہیں ،جب تک عصری تعلیمی ادارے اوردینی مدارس سیاسی تسلط سے آزاد نہیں ہونگے تب تک اصلاحات ممکن نہیں ہے۔

اگر حکومت سنجیدگی سے غور کرے تو18 ویں ترمیم کے تناظر میں تمام وفاقات کے بورڈز بنانے کا اختیار صوبوں کو ہی دینا چاہیے اور وفاق کی سطح پر اسلام آباد اور فاٹامیں موجود تمام سرکاری اور غیر سرکاری مدارس کوپہلے سے موجود حکومتی مدرسہ بورڈ ”پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ “کے ساتھ منسلک کر دینا چاہیے ، صوبائی سطح پرسرکاری مدرسہ بورڈ قائم کیے جانے چاہیئے تاکہ سرکاری صوبائی بورڈ کے ساتھ وہ مدارس شامل ہو جائیں جوکہ پانچ وفاقوں سے علیحدہ رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں اور ان کے ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتے ۔لہذا اگر پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو وفاق کی سطح پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرح فعال ادارہ بنایا جائے تو یہ ریاست کی ایک اہم کامیابی تصور کی جا سکے گی۔

تاہم اس ساری صورتحال سے مستقبل میں دینی مدارس کی تقسیم کا ایک اور سلسلہ وجود میں آئے گا جو مزید انتہاء پسندی کا باعث بن سکے گا۔ اس کی ایک بہتر صورت یہ بھی ہو سکتی ہے وفاق فوری طور پر اٹھارویں ترمیم میں صحت اور تعلیم کے لحاظ سے ترمیمی بل پیش کرے تاکہ ایک نظام اور نصاب تعلیم کا اجراءممکن ہو سکے، بصورت دیگر اٹھار ویں ترمیم اور نیشنل ایکشن پلان سے مذہبی انتہاء پسندی مزید تقویت حاصل کرے گی ۔

دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں کس طرح یکجہتی پیدا کی جاسکتی ہے ، یہ تو ماہرین ہی بتا سکتے ہیں تاہم اگر اس حوالے سے یکجہتی نہیں پیدا گئی تو معاشرے کی تقسیم خطرناک حد سے بڑھتی جائے گی ۔

مدارس میں اصلاحات کا عمل اہم مسئلہ ہے اور اس میں تمام علماٗ کی رائے کو مد نظر رکھنا چاہیے ۔ اگر لائن واضح کی جائے تو علماٗ اپنی مجبوریوں کے باوجود بھی ہمیشہ کی طرح حکومت اور ریاست کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے تیار ہوں گے ۔ علماٗ نے کئی موقعوں پر حکومت اور ریاست کے ساتھ اپنی استطاعت سے بڑھ کر تعاون کیا ہے۔ ریاست کی رٹ قائم کر نے کیلئے علماٗ سے وسیع تر مشاورت ضروری ہے۔ ملک میں ملی یکجہتی کے فروغ اور مسلکی ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ ملکی استحکام کیلئے علماٗ ضرور تعاون کریں گے تاہم اس مقصد کیلئے انہیں مشاورتی عمل میں شریک کیا جائے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے