گھٹن میں‌جیتے مرتے کشمیری عوام

کشمیر گزشتہ پانچ ماہ سے مسلسل جل رہا ہے۔وادی سے شروع ہونے والی آگ کے شعلے پھیل کر جموں اور گلگت بلتستان کی سرحد تک پہنچ چکے ہیں .کشمیر میں جاری آگ و خون کے اس کھیل میں پاکستان اور بھارت برابر کا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ چونکہ دونوں ممالک کی پیدائش مبارکہ قتل عام اور انسانی خون کی ندیاں بہانے کے بعد عمل میں آئی ہے اور اسی لیے دونوں ممالک ابھی تک خون بہانے کو فریضہ حق سمجھ رہے ہیں ۔

جنوبی ایشیامیں رونما ہونے والا کوئی بھی واقعہ یا حادثہ کشمیر پر براہ راست اثرات مرتب کرتا ہے ۔ مسئلہ کشمیر کے دو خود ساختہ فریق بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کشمیر کو ہی میدان کار زار میں تبدیل کرتے چلے آئے ہیں۔ رواں برس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اجلاس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کشمیر میں قتل عام کا سلسلہ شروع ہواجو اب بڑھتے بڑھتے سیز فائر معائدے کے خاتمے کا باعث بن گیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے سارک کانفرنس میں بھارت کو نیچا دکھانے اور خطے میں اپنی” پگ“ اونچی کرنے کیلئے کشمیر میں مسلح جتھوں کو متحرک کیا۔مئی سے ہی وادی میں شورش کی ابتداءہوئی اور حالات خراب ہونے شروع ہو گئے ۔مسلمان پولیس اہلکاروں پر حملوں سے شروع ہونے والا کھیل اس وقت شدت اختیار کر گیاجب 8جولائی کو نوجوان گوریلا کمانڈربرہان مظفر وانی کو بھارتی سیکورٹی فورسز نے ایک مقابلے میں شہید کر دیا۔

کشمیر میں انتہائی کشیدہ صورت حال کے دوران اسلام آباد میں وزیر داخلہ کانفرنس ہوئی ۔چوہدری نثار کی ”انا“ نے حالات مزید خراب کیے جس کے باعث بنگلہ دیش ، افغانستان، نیپال اور بھوٹان بھی بھارت کے ساتھ کھڑے ہو گئے ۔ بھارت کو نیچا دکھانے کے چکر میں پاکستان خود تنہائی کا شکار ہو گیا۔چار ممالک کے بائیکاٹ کے باعث اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس بھی منسوخ کر دی گئی ۔پاکستان کا کشمیریوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر کیا گیا فائر نشانے پر نہ لگ سکا ،ردعمل میں خود پاکستان کے اندر سے سفارتی تنہائی کی جاندار آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔

دو ماہ کے طویل احتجاج اور مظاہروں کے بعد احتجاجی تحریک کا زور ٹوٹ گیا مگر اس دوران کشمیر میں فوجی کیمپوں پر ہلکے پھلکے حملوں کے بعد 19ستمبر کو اوڑی کے مقام پر سیز فائر لائن کے قریب واقع بھارتی فوجی کیمپ پر حملے نے حالات کو مزیدکشیدہ بنا دیا اور یوں یہ لڑائی پراکسی وار سے نکل کر پاکستان اور بھارت کی لڑائی میں تبدیل ہو گئی ۔اوڑی حملے میں 17بھارتی فوجی ہلاک اور 20سے زائد زخمی ہوئے جس کا بدلہ لینے کیلئے بھارت نے 28اور 29ستمبر کی درمیانی شب سیز فائر لائن پر سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کر دیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق فوج نے سیز فائر لائن سے دو سے تین کلو میٹر علاقے میں اندر داخل ہو کر دہشت گردوں کے چھ” لانچنگ پیڈ “تباہ اور 38افراد کو ہلاک کیا ۔ سرجیکل سٹرائیک کے دو روزبعد بھارت نے اپنے ایک فوجی کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا لیکن حکومت پاکستان نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ پاکستان نے سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ بھی مسترد کر کے اسے سیز فائر لائن کی خلاف ورزی قرار دیا گیاجبکہ اپنے دو فوجیوں کی شہادت اور 9کے زخمی ہونے کی تصدیق کر لی۔

پاکستان بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کا داغ دھونے اور بھارت پاکستان سے فوجی کیمپوں پر حملوں کا بدلہ لینے کیلئے سیز فائر لائن کے آر پارگولہ باری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ گولہ پاکستانی گن کے دھانے سے نکلے یا ہندوستانی گن برسائے دونوں جانب بے گناہ کشمیر ی عوام ہی مارے جا رہے ہیں ۔اب تک سیز فائر لائن کے دونوں جانب 40کے لگ بھگ شہری شہید ہو چکے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان 850کلو میٹر لمبی سرحد کو پرامن بنا کر دونوں ممالک کی فوجیں مورچہ بند ہو کر کشمیریوں کو بارود سے اڑا رہی ہیں اور جنت نظیر کی فضاوں کو بارود کی بو سے معطر کر رہی ہیں ۔

پاکستان اور بھارت دونوں ”سیکیورٹی سٹیٹ“ ہیں اسلحہ و بارود فروخت کرنے والے بڑے بڑے قاتل ممالک دونوں ممالک کو ایک دوسرے کیخلاف بر سرپیکار دیکھنا چاہتے ہیں ۔ امریکہ ،روس ،برطانیہ، چین سمیت کوئی بھی نہیں چاہتا کہ مسئلہ کشمیر حل ہو ۔ اسلحہ کے ان بیوپاریوں نے پاکستان اور بھارت کو ”شہ رگ“اور” اٹوٹ انگ“کے نعرے بھی دے رکھے ہیں اور یہی ممالک پاکستان اور بھارت کو کشمیر کے مسئلے پر اپنی اپنی حمایت کی یقین دھانیاں بھی کرا رہے ہیں ۔

مجبور ہو کر کہنا پڑتا ہے کہ کشمیری عوام گزشتہ70برس سے روز جیتے اور روز مرتے ہیں اس لیے دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ کشمیریوں پر احسان عظیم کرتے ہوئے کشمیر میں ایٹم بم گرا دیں اور اپنے بھوک سے سسک سسک کر مرنے ولے عوام کو مرنے سے بچائیں ۔اگر ایسا نہ کیا گیا توکشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کی ڈیڑھ ارب آبادی بھی غربت ،بھوک،افکاس کا شکار رہے گی ۔برائے نام حکومتوں میں چند اداروں کی بادشاہت اوربالادستی کا عمل جاری رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے