پیپلزپارٹی کے رہنماجہانگیر بدر 72 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

بے نظیر بھٹو کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کرگئے۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر بدر کو 2 روز قبل سینے میں درد کے باعث اسپتال لایا گیا جہاں حرکت قلب بند ہونے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ جہانگیر بدر کافی عرصے سے جگر اور معدے کے مرض میں مبتلا تھے جس کے باعث انہوں نے اپنی جماعت کی سرگرمیوں اور تقاریب میں جانا بھی محدود کردیا تھا۔

جہانگیر بدر 25 اکتوبر 1944 میں لاہور میں پیدا ہوئے اور انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ جہانگیر بدر پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے 2 مرتبہ وفاقی وزیر رہے۔ جہانگیر بدر نے 60 کی دہائی میں طلبا سیاست سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا اور باقاعدہ طور پر پہلی مرتبہ 1988 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور وہ وفاقی وزیراور سینیٹ میں لیڈرآف دی ہاؤس بھی رہ چکے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو، آصف زرداری سمیت صدر، وزیراعظم سمیت چاروں صوبائی گورنرز، وزرائے اعلیٰ نے دکھ کا اظہار کیا ۔

جہانگیر بدر نے زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔

وہ لاہور میں، یونیورسٹی کے ایام میں طلبہ یونین کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے۔

بطور نوجوان پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو سے ملے اور پھر پی پی پی میں شامل ہو کر اُن کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ وہ پی پی پی میں شمولیت کرنے والے پہلے طلبہ گروپ میں شامل تھے۔

ایوب خان اور یحیٰی خان کی آمریت کے دنوں میں انہوں نے کئی بار گرفتاریاں پیش کیں۔ وہ جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی متعدد بار گرفتار کیے گئے۔

ان کی حالیہ ترین قید جنرل پرویز مشرف کے دور میں تھی۔ اکثر وہ سیاسی وابستگی اور سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر ہی پابندِ سلاسل کیے جاتے رہے۔

سیاسی مصروفیات اور بدستور قید و بند کے باوجود، انہوں نے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔

سخت جیالا تصور ہونے والے بدر نے پارٹی کے تنظیمی عہدوں پر بھی مختلف حیثیت میں خدمات سرانجام دی ہیں۔

ابھی حال تک، جہانگیربدر پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

وہ مختلف انتخابات میں، رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر بھی منتخب ہوئے۔ وہ بینظیر بھٹو کی وزارتِ عظمی کے دوران وفاقی وزیر کے طور پر کابینہ کا حصہ رہے۔

بطور سینیٹر، بدر نے ایوانِ بالا کی مختلف قائمہ کمیٹیوں کے لیےبھی خدمات انجام دیں۔ وہ ایوان میں اپنی پارٹی پالیسی کی تشریحات کرتے ہیں۔

بدر کا نام این آر او سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل رہا اور جب سپریم کورٹ نے این آر او کو کالعدم قرار دیا تو احتساب عدالت نے انہیں بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔

ان کا نام آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سربراہ توقیرصادق کیس میں بھی لیا گیا۔

اوگرا کے سابق چیئرمین کو، قومی خزانے کو (مبینہ طور پر) تراسی ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ توقیر صادق پی پی پی رہنما بدر کے قریبی عزیز ہیں اور وہ انہیں بچانے کے لیے، تحقیقات میں مبینہ طور پر رکاوٹ بھی ڈالتے رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے