شرم تو پتھر کی آنکھ میں بھی ہوتی ہے

ٹرمپ جیت گیا ہے۔ مسلمانوں کے لیے برا ہوا۔

ہیلری ہار گئی ہے۔ یہودی اس کی حمایت کر رہے تھے۔

ہیلری جیت جاتی تو ٹرمپ سے کم نقصان دہ ثابت ہوتی۔

ٹرمپ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال دے گا۔

ٹرمپ تباہی مچا دے گا۔

ہیلری اور ٹرمپ میں بس اتنا فرق ہے کہ ایک کھلم کھلا مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کا اظہار کر رہا ہے۔ دوسری دل کے نہاں خانے میں مسلمانوں کے خلاف عناد رکھتی ہے۔

یہ اور اس قبیل کے تبصرے لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں کیے جا رہے ہیں! سوشل میڈیا پر، اخبارات میں، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے، مراکش سے لے کر مصر تک، مصر سے لے کر سوڈان تک‘ مالی سے لے کر سینی گال تک‘ ترکی سے لے کر جزیرہ نمائے عرب تک‘ ایران سے لے کر مسقط و عُمان تک‘ پاکستان سے لے کر ڈھاکہ تک۔ ہر جگہ امریکی انتخابات پر اور ان انتخابات کے نتائج پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ کچھ فلاں کی مخالفت میں ہیں۔ کچھ فلاں کی حمایت میں! اگر یہ ہار جاتا تو یہ ہو نا نہ ہوتا اور اگر وہ جیت جاتی تو ایسا ضرور ہوتا!!

مگر افسوس! صد افسوس! امریکی انتخابات سے جو سبق سیکھنا ہے، اس کی طرف ہم مسلمان نہیں آتے۔ اس لیے کہ اپنے گریبان میں جھانکنا مسلمانوں نے سینکڑوں برس سے ترک کر رکھا ہے۔ دنیا کی ہر قوم میں کیڑے دکھائی دیتے ہیں سوائے ان قوموں کے جو مسلمان ہیں۔

آپ مسلمانوں کی باتیں سنیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ امریکہ دنیا کا بدترین ملک ہے‘ اس کی بنیاد ہی ٹیڑھی تھی۔ اِن ظالموں نے ریڈ انڈین باشندوں سے دھوکا کیا‘ ان کے ملک پر قبضہ کر کے انہیں محکوم بنا لیا۔ امریکہ میں جب بھی آپ گھر سے باہر نکلیں، جیب میں کم از کم دس ڈالر ضرور رکھیں ورنہ کچھ نہ لوٹ سکنے پر کالا آپ کو چاقو مار دے گا۔ امریکی جمہوریت سب فراڈ ہے‘ بڑی بڑی کمپنیاں امیدواروں کو خرید لیتی ہیں۔ بزنس کارٹل الیکشن مہم کے لیے پیسہ دیتے ہیں اور اپنی من مانی پالیسیاں بنواتے ہیں۔ کانگرس کے ارکان بکے ہوئے ہیں۔ یہ سب سودی نظام کے غلام ہیں۔ یہودی لابی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ الیکشن جیتنا یا ہارنا اس پر منحصر ہے کہ اسرائیل کے متعلق اُمیدوار کیا کہتا ہے۔ امریکی انتخابات سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے۔یہ صرف مشتے نمونہ از خروارے ہے۔ ورنہ تقریباً ہر مسلمان امریکہ کے خلاف گھنٹوں بول سکتا ہے۔ مسلمانوں کا بچہ بچہ امریکہ کا پوسٹ مارٹم کر سکتا ہے۔ عالم اسلام میں امریکی امور کے ماہرین کی تعداد کم از کم بھی کروڑوں میں ہے۔

یہ کون سی مخلوق ہے جو امریکہ پر صبح و شام تین تین بار لعنت بھیجتی ہے؟ یہ وہ مسلمان ہیں جن سے ابھی تک یہی طے نہیں ہؤا کہ ایک حکمران کی جگہ دوسرا حکمران کیسے آئے گا؟ آپ ابتدا سے حساب لگا لیجیے۔ ٹھنڈے دل سے غور کیجیے۔ چار خلفائے راشدین میں سے صرف ایک شہید نہیں ہوئے۔ پرامن انتقالِ اقتدار صرف دو کے حوالے سے ہو سکا۔ جمہوریت کو دن رات گالی دینے والے بھول گئے کہ چوتھے خلیفۂ راشد سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے بعد موروثی سلسلہ شروع ہو گیا جو ایک دو مسلمان ملکوں کو چھوڑ کر آج تک چل رہا ہے! عباسیوں نے امویوں کی لاشوں پر قالین بچھایا اور ضیافت اڑائی۔ امام مالک کے ساتھ اور امام ابو حنیفہ کے ساتھ اور امام احمد بن حنبل کے ساتھ ”خلافت‘‘ نے کیا سلوک کیا؟ ان فرشتہ صفت علم و عمل کے میناروں کو جیلوں میں رکھا گیا‘ زہر دیا گیا‘ بازو اکھیڑ دیے گئے‘ اونٹوں پر سوار کرا کے شہروں میں تحقیر کے لیے پھرایا گیا۔

امریکی جمہوریت کو گالی دینے والے بھول گئے کہ ”خلافت‘‘ عثمانیہ میں علما نے فتوے دیے تھے کہ جو ”سلطان‘‘ تخت نشین ہو گا اس کے لیے بھائیوں کو قتل کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر تخت نشینی کی جنگوں میں کئی ہزار مسلمان مارے جائیں گے۔ خلافت عثمانیہ کیا تھی؟ باپ کے بعد بیٹا پھر اس کا بیٹا‘ پھر اس کا بیٹا‘ پھر اس کا بیٹا۔ ایران کے صفویوں سے لے کر برصغیر کے مغلوں تک‘ سب خاندانی حکمرانیاں تھیں۔ شاہ جہاں آٹھ سال قید رہا‘ اکثر مسور پکاتا تھا کہ اس میں زہر کی ملاوٹ مشکل ہوتی ہے۔ اورنگ زیب کو تخت حاصل کرنے کے لیے پانچ سال جنگیں لڑنا پڑیں۔ بھائیوں بھتیجوں میں سے کچھ کو تلوار سے اور کچھ کو قید میں رکھ کر پوست پلا پلا کر مارا۔

امریکی جمہوریت فراڈ ہے تو آپ ہی دنیا کو کوئی نظام دے دیتے! اپنے گریبان میں جھانکیے‘ ماضی کو چھوڑیے‘ آج کے دور میں آپ کے ہاں اِس ”لعنتی‘‘ جمہوریت کا نعم البدل کیا ہے؟ مراکش سے لے کر بحرین تک موروثی بادشاہت! کیا اس پر مسلمان فخر کر سکتے ہیں؟ قذافی 1969ء میں آیا اور 2011ء میں ذلیل ہو کر مرا‘ تب تخت خالی ہوا۔ یہ بیالیس سال کا عرصہ بنتا ہے۔ زین العابدین

2011ء تک چوبیس سال تونس پر حکمران رہا۔ جمال عبد الناصر چودہ سال اقتدار سے چمٹا رہا‘ مرکر جان چھوڑی۔ پھر انورالسادات گیارہ سال حکمران رہا‘ مرکر جان چھوڑی۔ حسنی مبارک تیس سال سیاہ و سفید کا مالک رہا‘ پھر حیران ہؤا کہ لوگ اس کے خلاف کیوں ہیں؟ عالمِ اسلام کے گوہرِ تابدار پاکستان کا حال دیکھ لیجیے۔ اس ملک کو فخر ہے کہ یہ واحد مسلمان ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہے۔ ایوب خان نے اس وقت جان چھوڑی جب اس نے لڑکوں کو ”ایوب…… ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگاتے سنا۔ ضیاء الحق گیارہ سال اسلام نافذ کرتا رہا‘ مرکر جان چھوڑی۔ دنیا کی تاریخ میں‘ جی ہاں دنیا کی تاریخ میں یہ اصول پہلی بار طے ہوا کہ اگر کوئی اسلامی نظام چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ صدر ضیاء الحق اتنے برس مزید برسرِ اقتدار رہیں گے! دس برس بادشاہی کرنے والا صدر پرویز مشرف آج ملک میں پاؤں نہیں دھر سکتا۔ رہی پاکستانی جمہوریت، تو اس میں پیپلز پارٹی پر قیادت باپ کے بعد بیٹی کی ہے‘ پھر شوہر کی‘پھر بیٹے کی! مسلم لیگ نون میں جمہوریت یہ ہے کہ شہزادی، بادشاہ کی غیر حاضری میں سفیروں سے ملتی ہے‘ کس حیثیت سے؟ حمزہ شہباز کا پروٹوکول دیکھ کر جمہوریت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

امویوں عباسیوں‘ عثمانیوں ‘قاچاریوں‘ صفویوںاور مغلوں کو چھوڑیے۔ آج کے مسلمانوں کے نظام ہائے حکومت پر غور کیجیے۔ کیا امریکی جمہوریت اس سے بھی بدتر ہے؟ ٹرمپ اگر شیطنت کا مجسمہ ہے تب بھی زیادہ سے زیادہ آٹھ برس حکومت کرے گا۔ کچھ شرم کچھ حیا‘ تو پتھر کی آنکھ میں بھی ہوتی ہے۔ تیسری بار وہ صدارت کا اہل ہی نہ ہو گا۔ ہمارے ہاں وزیراعظم چوتھی باری کی تیاری کر رہا ہے! کیا ٹرمپ کے آٹھ سال قذافی کے بیالیس سالوں، زین العابدین کے چوبیس سالوں جمال عبدالناصر کے چودہ برسوں، انور السادات کے گیارہ برسوں حسنی مبارک کے تیس برسوں، ایوب خان کے گیارہ برسوں اور ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ایک ایک عشرے سے بھی زیادہ غیر جمہوری ہوں گے؟ کیا امریکی جمہوریت اُس وقت مسلمانوں کے لیے لائقِ تحسین ہو گی جب ری پبلکن پارٹی پر بھٹو خاندان اور ڈیمو کریٹک پارٹی پر شریف خاندان مسلط ہو گا؟

دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ امریکہ کی ‘لعنتی‘‘ جمہوریت کا نعم البدل نہیں پیش کر سکتے!! 1789ء میں جارج واشنگٹن پہلا امریکی صدر بنا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک ہر چار سال بعد الیکشن ہو رہے ہیں‘ 58 بار انتخابات ہو چکے ہیں‘ ٹرمپ 45 واں صدر ہو گا۔ دو سو برس سے زیادہ طویل اس عرصہ میں کوئی تخت نشینی کی جنگ نہیں ہوئی۔ ہارے ہوئے کسی امیدوار نے دھاندلی کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی۔ کوئی فوجی ”انقلاب‘‘ نہیں آیا۔ کسی صدر کے بیٹے یا بیٹی نے وزیروں کو طلب کیا نہ سفیروں سے حاضری لگوائی۔ اس ”کافرانہ‘‘ جمہوریت میں کسی بیٹی، کسی نواسی، کسی بہن، کسی شوہر، کسی بھتیجے نے کسی پارٹی پر خاندانی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔

یہ سسٹم اگر یہودی نواز ہے، اگر اس پر کمپنیوں کا قبضہ ہے، یہ اگر کاروباری اجارہ داریوں (بزنس کارٹلز) کا پروردہ ہے تو آپ اس میں کیڑے نکالنے کے بجائے ایک بہتر سسٹم چلا کر دکھائیے جس میں یہ سارے نقائص نہ ہوں۔

گریبان میں جھانکنے کے لیے گریبان کا ہونا لازم ہے۔ آئینہ دیکھنے کے لیے آئینہ موجود ہونا چاہیے۔ آپ کے پاس پچاس سے زیادہ ممالک ہیں۔ سب میں نہیں، نصف میں نہیں، ایک چوتھائی میں نہیں، تین چار میں نہیں، ایک میں‘ صرف ایک میں ہی‘مغربی یا امریکی جمہوریت سے بہتر نظام، حکومت چلانے کا نظام، انتقالِ اقتدار کا نظام، چلا کر دکھا دیجیے۔!!

بشکریہ : روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے