جہانگیر بدر اور غریب عوام کی سیاست

جہانگیر بدر کے انتقال کی خبر سن کرذہن میں ماضی کے نقوش اُبھر آئے۔وہ پیپلز پارٹی کے سرکردہ راہنما ء تھے لیکن اُن کی بنیادی پہچان ورکر کی سی تھی۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جیالے کا جنم پی پی پی کے بطن سے ہوا اور جیالوں کا نام ذہن میں آتے ہی جہانگیر بدر کا چہرہ یاد آتا ہے۔ پکوڑے بیچنے والے کا یہ لڑکا جب پنجاب یونیورسٹی داخل ہوا تو طبقاتی شعور اور کشمکش۔عالمی سیاسی تقسیم اُسے ایوب آمریت کے خلاف چلنے والی طلباء تحریک کا حصہ بنا گئی۔

اُن دنوں مزدوروں اور طلباء یونین قومی سیاست کی نرسریاں ہوا کرتی تھیں۔

وفاداری تبدیل کرنا اور اپنے طبقے سے غداری کرنا جہانگیر بدر کی ڈکشنری میں ہی نہ تھا۔ اس راہ میں دار و بند کی صعوبتیں آئیں۔ معاشی تنگدستی اور کسی بھی جبرِ ناروا نے جہانگیر بدر کے قدموں میں لغزش نہ آنے دی۔

ضیاء آمریت کے ابتدائی دنوں میں جب ذوالفقار علی بھٹو لاہور ہائی کورٹ تاریخ پر پولیس حراست میں جایا کرتے تھے۔جہانگیر بدر کی قیادت میں طلباء نے پنجاب یونیورسٹی کینال روڈ پر ذوالفقار علی بھٹو کا استقبال کیا اور پھولوں کی پتیان نچھاور کیں۔ جہانگیر بدر کا یہ جرم ضیاء آمریت میں ناقابل معافی تھا۔
لہٰذا اُنہیں فوری طور پر گرفتار کر کے جیل میں بھٹو کے سیل کے سامنے والی بیرک میں رکھا گیا۔شام کو بیرک سے نکال کر جہانگیر بدر کو بھٹو کی کوٹھڑی کے سامنے کوڑے مارنے کا عمل شروع ہوا ہر کوڑا پشت پر کھانے کے بعد جہانگیر بدر "جئے بھٹو” کا نعرہ بلند کرتا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد بہت سے پارٹی راہنماء سیاسی جلا وطنی اور مصلحت کوشی کے تحت خاموش ہو گئے لیکن جہانگیر بدر ملک کے طول وعرض کی جیلوں میں مقید رہا۔

1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب یہ فیصلہ کیا کہ وہ لاہور آ کر اپنی سیاسی جلا وطنی ختم کریں گی۔تو یہ ذمہ داری جہانگیر بدر اور دیگر لاہور کی تنظیم پر آ پڑی۔

ایک جانب شوگر مل مالکان صنعتکار وزیر اعلیٰ نواز شریف اور جنرل ضیاء آمریت کی آشیر باد لیکن آفرین ہے جہانگیر بدر اور پارٹی ورکروں راہنماؤں پر جنہوں نے تنِ تنہا بے نظیر بھٹو کا تاریخی استقبال کیا۔

جہانگیر بدر کی لازوال جدوجہد اور استقامت کا خیال کرتا ہوں تو کالم کی تنگ دامنی کا احساس ہوتا ہے۔

مروجہ سیاست پرنظر دوڑاتا ہوں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آج غریب عوام کی سیاست میں شمولیت ایک خواب لگتی ہے۔وہ جہانگیر بدر جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے چھت پر سوار ہو کر بے خوف و خطر عوام سے خطاب کرتا تھا۔آج سیاسی راہنماؤں کے ہیلی کاپٹر اور جہازوں میں اس کے لئے جگہ نہ ملتی۔پارٹی کے جلسوں میں شامل اکثریت عوام پھٹے پرانے کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ شریک ہوئے۔

پیپلز پارٹی کے جھنڈے کچی بستیوں ،تندوروں،کوٹھریوں،محنت کشوں،کسانوں اورغریب عوام کے گھروں پر لہرا رہے ہوتے۔

اور پھر یہ جھنڈے بڑے بڑے محلوں فارم ہاؤسز جاگیرداروں کے ڈیروں پر لہرانے لگے۔ اور مزدوروں کی یونین پر پابندی لگا دی گئی تا کہ مزید جہانگیر بدر جنم نہ لے سکیں۔

غریب عوام کی سسکتی اور دم توڑتی سیاست کے ساتھ ہی جہانگیر بدر نے بھی لاہور کے ایک ہسپتال میں دم توڑ دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے