محمود عباس کی تلاش ختم

ایک سال پورا ہونے کو ہے جب نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں تاریخ میں پہلی بار فلسطینی پرچم لہرایا گیا۔ فلسطینی پرچم کشائی کی علامتی اعتبار سے خود مختار فلسطینی ریاست کی طرف اہم پیش رفت ہے۔

اکتوبر 2015 کونیویارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفتر کے مرکزی داخلی راستے پر 193 ملکوں کے قومی پرچموں میں سرخ، سیاہ، سفید اور سبز رنگ کا فلسطینی پرچم بھی لہرایا گیا تھا۔ پرچم لہرانے کی جدوجہد کا مرکزی کردار فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمودعباس ہیں۔

کشمیر اور فلسطین ا قوام متحدہ کے ایجنڈے میں موجود دو دیرینہ تنازعات ہیں۔فلسطین اور کشمیرکے عوام دو طاقتور استعماری ریاستوں سے نبرد آزما ہیں۔دونوں قوموں نے اپنے حق خودارادیت کے لیے نصف صدی سے متحرک جدو جہد شروع کر رکھی ہے۔

طاقتور ریاستیں اسرائیل اور بھار ت فلسطینیوں اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم رکھنے ، انہیں طاقت کے زور پر دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ پیلٹ گن کے چھرے پہلے فلسطینیوں کے جسم چھلنی کرتے تھے اب یہ عمل کشمیر میں جاری ہے۔

بدقسمتی سے کشمیری آج بھی سڑکوں پر ہیں جبکہ فلسطینی اقوام متحدہ کے دروزے پر پہنچ گئے ہیں۔ اب اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں 193ممبر ممالک کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کا جھنڈا بھی ہے۔ اگرچہ فلسطینی جھنڈا لہرایا جانا ایک علامتی عمل ہے تاہم یہ عمل فلسطینی ریاست کی شناخت کی طرف ایک قدم ضرور ہے۔

کشمیر کا مقدمہ بھی 1948سے اقوام متحدہ میں موجود ہے۔ یہ مقدمہ اس وقت پیش ہوا تھا جب اقوام متحدہ کے قیام کو صرف تین سال ہوئے تھے۔ غازی ملت سردار محمد ابراہیم اقوام متحدہ میں کشمیر کا کیس لڑنے گئے تھے۔اب ان کا پوتا جناب سردار مسعود خان بطور صدر اس مقدمے کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

مسعودخان کشمیریوں کا محمود عباس ہو سکتا ہے۔ اگر کسی کو کشمیریوں کے لیے بھی محمود عباس کی تلاش تھی تو اب تلاش ختم ہوئی۔ کشمیریوں کا محمود عباس نیویارک میں قائم اقوام متحدہ کے صدر دفتر پر کشمیر کا جھنڈا لہرانے کے لیے مرحلہ وار حکمت عملی تیار کر سکتا ہے۔

سوال اہم ہے کہ کیا ریاست پاکستان ایسا چاہے گی کہ کشمیرالگ ریاست کے روپ میں سامنے آئے؟ پاکستان کے آئین میں ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت متنازعہ خطہ کی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 257 کشمیریوں کی الگ شناخت ظاہر کرنے سے نہیں روکتا۔ بات صرف سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کے باشندے اپنی الگ شناخت کی بنیاد پر ہی پاکستان میں شامل ہو سکتے ہیں۔

غازی ملت سردار ابراہیم جب اقوام متحدہ میں گئے حالات اور معاملات ان کے کنٹرول میں نہ تھے پھر بھی ان کی مثال دی جاسکتی ہے کہ کوئی تھا جسے کشمیریوں کی نمائندگی کا حق حاصل ہوا تھا۔ 1948سے2016کے دوران کشمیری قیادت نے اقوام متحدہ کے میکانزم اور اس کی اہمیت کو سمجھنے، کی کوشش کی اور نہ ہی اس ادارے میں گھسنے کی ضرورت محسوس کی، ہاں کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تسبیح ضرور چلائی جاتی رہی۔

اس عالمی ادارے کے ایجنڈے پر کشمیر یوں کے حق خودارادیت کا مقدمہ بڑا پرانا ہے۔ اس مقدمہ کے بعد دائر کیے جانے والے کئی مقدمات اپنے انجام کو پہنچے۔ سرینگر ، مظفر آباد اور گلگت میں قائم حکومتیں بھی اس سلسلے میں کوئی کام کرنے میں ناکام رہیں۔مظفر آباد کی حکومت نے اب تک دنیا میں اپنا تعارف کرانے اور اپنی شناخت ظاہر کرنے کا ٹھیکہ حکومت پاکستان کو دے رکھا ہے۔

اقوام متحدہ کے میکانزم سمجھنے اور اس کے اداروں میں گھسنے کے گُر جاننے والا مسعود خان اب ریاست جموں وکشمیر کا منتخب صدر ہے۔ یہ شخص کشمیریوں کے لیے محمود عباس کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

فلسطینیوں نے یہ منزل مرحلہ وار طے کی۔ کبھی یونیسکو کبھی ڈبلیو ایچ اور کبھی کسی ادارے کی رکنیت سے ان کا سفر بڑھتا گیا۔ عالمی محتسب فورم میں پاکستان نے آزاد کشمیر کی رکنیت دلوائی تھی۔ دولت مشترکہ فورم میں آزادکشمیر کی رکنیت کی درخواست زیر کار ہے۔ یہ پیش رفت حوصلہ افزا ہے اس پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست پاکستان بھی درپردہ ایسا ہی چاہتی ہے۔

اقوام متحدہ میں پہنچنے کے لیے فلسطینیوں کی جد و جہد کو دنیا نے تو سمجھ لیا ہے مگرکشمیریوں نے اس سے کوئی سبق حاصل کیا اور نہ ہی مطالعہ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو حق خودارادیت کے راستے سے ہٹانے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ تمام حربے اور راستے اختیار کیے ہوئے ہے حتی کہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات مرحوم کے کمپاونڈ پر بھی بمباری کی گئی۔ ان مشکل حالات میں بھی فلسطینیوں کی جدوجہد جاری رہی۔

ان کا قائد یاسر عرفات اپنے دفتر میں سامنے والے ٹیبل پر اپنا پستول ضرور رکھتا تھا۔75 برس کی عمر میں نومبر 2004 کو اپنی وفات تک یاسر عرفات کا عزم تھا کہ میں اپنی قوم کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا اور اگر کبھی حالات ہاتھ سے نکل گئے تو میں سرنڈر کے بجائے مزاحمت کو ترجیح دوں گا۔

9دسمبر 1998کو جنرل اسمبلی میں یاسرعر فات مرحوم کی فلسطین لیبریشن آرگنائزیشن پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم تسلیم کرتے ہوئے اسے اختیار دیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے فورم پر فلسطین کی نمائندگی کر سکتی ہے۔ اپنی نمائندگی کے اس حق کے لیے کسی درمیانی راستے کے بغیر براہ راست ممبر ممالک سے رابطہ کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ اور ممبر ممالک سے خط کتابت کی جاسکتی ہے۔ فلسطین کی طرف سے ایسی خط وکتابت اقوام متحدہ کی طرف سے آفیشل تسلیم کی جائے گی۔

دوسری طرف UNCIP کی تسلیم شدہ حکومت آزادکشمیر میں قائم ہے مگر مقدمہ کشمیر میں کوئی مثبت پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔ 8 جولائی کو نوجوان کشمیری عسکری کمانڈر برھان وانی کی شہادت کے بعد عوامی احتجاج زوروں پر ، پورا کشمیر کرفیوتوڑ کر سڑکوں پر ہے۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بھارت سے نفرت کے نتیجے میں کشمیریوں کی آزادی کا مطالبہ پاکستا ن زندہ باد کے نعروں میں گم ہورہا ہے۔ حکومت پاکستان نے ان دنوں کشمیر کے لیے سفارتی مہم شروع کر رکھی ہے۔مگر دنیا اس مہم کو سنجیدہ لینے کے لیے آمادہ نظر نہیں آتی ، ہاں اگر آج اقوام متحدہ کے میکنزم میں کشمیر کی حکومت موجود ہوتی کشمیریوں کے پاس کوئی محمود عباس ہوتا جو کشمیر کی صورت حال سمجھنانے کی کوشش کرتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔

مسعود نے سفارتی ذمہ داریوں کے دوران بین الاقوامی برادری کی کئی پیچیدہ امور کو سلجھانے میں رہنمائی کی ہے۔جنوری 2013ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر رہے۔جنیوا میں اسلامی تعاون تنظیم کے چیئرمین بھی رہے . انہوں نے 2005 میں جنیوا میں تخفیف اسلحہ کانفرنس کی صدارت کی اور اسی سال کے آخر میں بحیثیت چیئرمین تیونس میں عالمی سمٹ برائے انفارمیشن سو سائٹی میں انٹرنیٹ گورننس کا مسئلہ سلجھایا۔

2006 میں انہوں نے حیاتیاتی ہتھیاروں کے کنونشن کی پنج سالہ ری ویو کانفرنس کی صدارت کر کے امریکہ، یورپی یونین، ایشیائی، لاطینی اور افریقی ممالک کو اتفاق رائے سے فیصلے کرنے پر آمادہ کیا۔

جنیوا میں بحیثیت سفیرساڑھے تین سال تک حقوق انسانی کی کونسل میں اسلامی تعاون تنطیم کی بحیثیت چیئرمین نمائندگی کی اور بار ہا کونسل کو فلسطین کے بارے میں قراردادوں اور فیصلوں پر مجبور کیا۔ مسعود خان کی یہ سفارتی ذمہ داریاں گنوانے کا مقصد یہ ہے کہ قوم کو ایک خواب دکھایا جائے کہ ہاں سب کچھ ممکن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے