پیوستہ رہ نون سے،،،، امید معجزات رکھ

میں تو تین چار دن سے بہت خوش ہوں، میرے محبوب وزیر اعظم نے اعلان جو کر دیا ہے ملک میں خوشحالی کا، لوڈ شیڈنگ کا جن بوتل میں بند کرنے کا، عوام کو ریلیف دینے کا، ڈھیر ساری ترقی کا۔۔ یہ سب ممکن ہو گا 2018 میں۔
اب یہ ہنسنے والی بات نہیں رہی، تم ہنستے ہو تو ہنستے رہو، تمہارا تو لیڈر بھی سنجیدہ تقریر اس طرح کرتا ہے کہ تم ہنستے پھرتے ہو۔۔ تمہارا کام صرف ہنسنا ہے، ہمارا لیڈر صرف کام پر یقین رکھتا ہے۔ قائد اعظم کے فرمان پر اگر کوئی حقیقتاً عملدرآمد کر رہا ہے تو وہ میرے محبوب وزیر اعظم ہیں۔ دیکھیں ناں، کام ، کام، کام اور بس کام ۔۔ اس پر عمل کرتے کرتے میرا لیڈر دل کے عارضہ میں مبتلا ہو گیا۔ اتنا بڑا آپریشن کرواتے ہوئے بھی انہیں صرف اپنے ملک کی پرواہ تھی، یقین نہیں آتا تو ملک کا سب سے بڑا اخبار پڑھا کریں۔

آپ لوگ جلتے ہیں میرے محبوب وزیر اعظم سے ، کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے ملک کو لوٹا ہے اس کا احتساب کرو، یہ کیا بات ہوئی، احتساب کرنا ہے تو پہلے ریڈ کلف کمیشن کے سربراہ کا کرو، اس نے مسلم اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کر دیئے جہاں سے بھارت کو کشمیرکا راستہ مل گیا۔ احتساب کرنا ہے تو پہلے اس کا کریں جس نے بانی پاکستان کو ہسپتال پہنچانے کے لیے خراب ایمبولینس بھیجی۔ احتساب کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو کیجئے اس قاتل کا جس نے لیاقت علی خان کو شہید کر دیا۔۔ یہ نہ کہنا کہ ان میں سے اب کوئی زندہ نہیں، یہ ہمارا قصور نہیں کہ ان میں سے کوئی زندہ نہیں، ہم نے انہیں نہیں مارا۔
احتساب کی روایت چلی ہے تو احتساب سب کا ہونا چاہئے لیکن سب کا احتساب ہو بھی جائے تو بھی میرے لیڈر کا کیوں ہو؟ انہوں نے کیا ہی کیا ہے؟ میرے وزیر اعظم پر الزام لگانے والوں یہ یاد رکھو ایک غریب یتیم بچے پر الزام لگانے کا بہت گناہ ملے گا۔ میرے محبوب وزیر اعظم کے حوالہ سے عطا الحق قاسمی، ابصار عالم، نجم سیٹھی، جاوید چوہدری اور صالح ظافر سمیت سب گواہی دے سکتے ہیں کہ انہوں نے کبھی کرپشن نہیں کی، ان پر نہیں یقین تو ان کی پیشانی ہی دیکھ لو،میرے لیڈر کی بے گناہی کی گواہی تو ان کی روشن پیشانی سے بھی ملتی ہے۔

دیکھئے بڑے بزرگ بالکل ٹھیک کہتے تھے جب دولت آتی ہے تو بندہ گنجا ہونا شروع ہو جاتا ہے، میرے محترم لیڈر جب سیاست میں آئے تو وہ فارغ البال یعنی گنجے تھے ، اس وقت میری عمر کے کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نوجوانی میں میاں نواز شریف کو گنجا دیکھا یعنی اس وقت ان کے پاس بے پناہ دولت تھی آج ہم قریب الگنج ہے لیکن اب ان کے سر پہ بال ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی دولت ان کے ہاتھوں سے چلی گئی ہے اور آپ ایسے فرشتہ صفت انسان پر الزام لگاتے ہیں، شرم آنی چاہئے آپ سب لوگوں کو۔
اب یہ نہیں کہنا کہ محلے میں سبزی بیچنے والا شکورا کیوں گنجا ہے؟ کیا وہ امیر آدمی ہے؟ حسن نواز اور حسین نواز کے سر پہ بال کیوں ہیں کیا وہ غریب ہیں؟ مجھے معلوم تھا آپ ایسے بے تکے سوال ہی پوچھیں گے۔ شکورے سبزی والے کے سر پہ بال اس لیے نہیں کہ اس کی بیوی بہت سخت ہے وہ اس بے چارے کے بال کھینچتی رہتی ہے جس کے باعث اس کے بال بہت جلدی اڑ گئے ویسے بھی آج کل یہ سبزی اور پھل والے غریب نہیں بلکہ ہم سے زیادہ امیر ہوتے ہیں۔۔ رہ گئی میرے محبوب وزیر اعظم کے بیٹوں کی بات کرنے والوں پر تو اللہ کا عذاب ہی آئے گا۔ وہ دونوں تو اتنے معصوم ہیں کہ اکثر وہ باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو نہیں کہنی چاہئیں۔ دیکھیں ناں اپنی معصومیت میں وہ پانامہ لیکس کے حوالہ سے کیسی باتیں کہہ گئے کہ اب ان کے ابا حضور کوعدالت عظمیٰ میں جواب جمع کروانا پڑ گیا ہے۔

انہیں نہیں معلوم ان شاطر ٹی وی چینل اینکرز کے آڑھے ترچھے سوالوں کا جواب دینے سے بہتر اکثر خاموشی یا نو کمنٹس ہوتا ہے۔
وہ اپنی معصومیت اور سادگی میں ایسی باتیں کر گئے جو انہیں وکیل سے پوچھے بنا نہیں کرنی چاہئے تھیں، ایسے سوالات کا جواب تو اعتزاز احسن جیسے وکیلوں سے ہی تیار کروایا جائے تو ٹھیک رہتا ہے ورنہ پھر اگر اعتزاز احسن جیسے وکیل ہی آپ کے خلاف فریق بن جائیں تو مشکل ہو جاتی ہے۔ اعتزاز احسن جب تک افتخار چوہدری کے وکیل تھے افتخار چوہدری ملک میں انقلاب کی آواز تھے جب ملک ریاض نے اعتزاز کو وکیل کر لیا تو پھر دو دن میں چیف جسٹس کی عزت کا جنازہ نکلتے سب نے دیکھا لیکن کیا کریں حسن اور حسین نواز تو اتنے غریب ہیں کہ اعتزاز احسن جیسے مہنگے وکیل کی فیس برداشت نہیں کر سکتے۔

اب تو آپ کو معلوم ہی ہے ان کے والد بھی وزیر اعظم کی تنخواہ وصول نہیں کر رہے اس لیے وزیر اعظم کو بھی غالباً اب کبھی پھر ضرورت پڑے گی تو وہ سرکاری وکیل ہی کریں گے، اس لیے اعتزاز جیسے لوگ ان کے خلاف نعرے بازی بھی کریں گے۔

حسن اور حسین اپنی معصومیت میں ایسی باتیں بھی کر گئے جس سے گھر کی ترتیب پہ بھی اثر پڑا ہے، دختر اعظم بھی اچانک پیا دیس سدھار گئیں یعنی انہیں شادی کے کئی سال بعد مریم نواز کے بجائے مریم صفدر کا ٹائٹل مل گیا۔کوئی اور اس صورتحال پہ خوش ہو یا نہ ہو، اپنے کپتان صاحب بہت خوش ہیں۔۔ معاف کیجئے گا کپتان اصلی والے کی بات ہو رہی ہے کھلاڑی کپتان کی نہیں۔۔ کیپٹن صفدر کا نام شادی کے بعد صفدر مریم ہوگیا تھا اچانک سپریم کورٹ میں معاملہ پہنچنے پر انہیں اپنا اصلی نام یاد آیا۔۔ اور مریم صفدر کو بھی لیکن آپ تو نہیں مانیں گے، آپ کے لیے تو یہ لوگ خراب ہیں چاہے یہ جتنے بھی نیک کیوں نہ ہوں۔

عمرا ن کو کیا معلوم یہ حکوم کرنا کتنا مشکل کام ہے،کتنی ہی مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف کہہ چکے ہیں حکومت مخمل کی نہیں کانٹوں کی سیج ہے ، اسی لیے تو وہ اس سیج پرخود بیٹھتے ہیں یا کوئی اور ایسابزرگ جسے سزا دینا مقصود ہواپنے ساتھ رکھتے ہیں، جیسے اپنے ممنون صاحب کو صدر مملکت کا مشکل عہدہ بطور سزا دے دیا، سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کی بھی عمر ایسی ہی ہو چکی ہے کہ اکثر وہ اپنا گھر بھی بھول جاتے ہیں مگر ظاہر ہے انہیں بھی سزا دی ہوئی ہے کانٹوں کی سیج پربیٹھنے کی۔۔ حال ہی میں ایک اور شخص جو غالباً اپنا بوجھ بہت مشکل سے اٹھا پاتے ہیں انہیں گورنر سندھ کا حلف اٹھانا پڑ گیا، ان کے حلف اٹھانے سے گورنر ہاؤس پہنچنے تک کئی طاقت کے ٹانک پلائے گئے تو وہ پہنچنے میں کامیاب ہو سکے، پھر بھی دو مرتبہ ہسپتال کے آئی سی یو لے جایا گیا اس طرح دو مرتبہ ہسپتال کو گورنر ہاؤس قرار دینا پڑا۔اب اگر کوئی نوجوان ہوتا تو اسے کانٹوں کی سیج پہ بیٹھ کر کتنی تکلیف ہوتی مگر ہمارے لیڈر کو نوجوانوں سے محبت ہے اس لیے انہیں کیا پورے ملک کو کانٹوں کی تکلیف سے بچایا ہوا ہے خود وہ بے شک لہولہان ہو جائیں انہیں اس کی پرواہ نہیں۔ یہ ہوتی ہے ملک اور عوام سے محبت۔چلو شکر ہے یہاں پیمرا کا بس نہیں چلتا نہیں تو مجھے بھی ایک نوٹس آ گیا ہوتا۔

اب دیکھئے ناں۔ میرے محبوب وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا مہنگائی میں کمی ہو گی تو کافی چیزیں سستی ہو چکی ہیں آلو کی قیمت تو کئی بار خود وزیر اعظم صاحب نے بتا دی ہے، انسانی جان اور انسانی خون بہت سستا ہوا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو سستی ہوئی ہیں مگر یاد نہیں آ رہیں۔ وزیر اعظم نے کہا تھا ملک میں ترقی ہو گی توہو رہی ہے ناں۔۔ اب نارووال میں اگر احسن اقبال کی وجہ سے زیادہ ترقی ہو رہی ہے تو آپ کو کیوں ہضم نہیں ہو رہی کیا نارووال پاکستان کا حصہ نہیں ؟
باقی جو سب سے بڑا وعدہ تھا لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا تو وہ وعدہ بھی 2018 میں پورا ہو جائے گا،اس حوالہ سے تو نیپرا بھی کہہ چکا ہے کہ مصنوعی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے اور حکومت جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کر رہی ہے جس کی ضرورت نہیں، اس پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم نہیں چاہتے ایسی اچھی خبریں سن کر عوام غش کھانے لگیں اس لیے آہستہ آہستہ خوشخبریاں دیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ملک میں خوشحالی آئے گی تو انتظار کیجئے۔۔ اگر وزیر اعظم نے کہا ہے خوشحالی آئے گی تو آئے گی۔ ایک خاتون نے دکان سے رنگ گورا کرنے والی کریم اس لیے خریدی کہ اس پہ لکھا تھا تیس روز میں شرطیہ رنگ گورا۔۔ ان کی سہیلی نے انتیس روز بعد پوچھا کوئی فرق پڑا؟۔۔ خاتون نے جواب دیا، انتیس روز کا نہیں تیس روز کا وعدہ تھا، مجھے امید ہے کل رات تک کوئی معجزہ ہو ہی جائے گا۔۔ آپ بھی چار سال تین سو چونسٹھ روز تو گزار لیں پھر آخری روز معجزہ تو ہی سکتا ہے۔
بقول شاعر(اقبال کی روح سے معذرت کے ساتھ) پیوستہ رہ نون سے، امیدِ معجزات رکھ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے