مسجد اقصی ٰمیں اذان پرپابندی اوراسرائیلی پارلیمنٹ میں اذان!

13نومبر2016ء اتوار کے روزاسرائیلی پارلیمنٹ میں مسجد اقصیٰ سمیت دیگر فلسطینی مساجد میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے پر پابندی لگانے کاایک بل پیش کیا گیا۔بل میں کہا گیا کہ چوں کہ القدس سمیت دیگر علاقوں میں یہودی رہتے ہیں انہیں اذان کی آواز سے تنگی ہوتی ہےاوران کی طرف سے اذان پر پابندی کا مطالبہ بھی ہے،اس لیے انہیں پریشانی سے بچانے کے لیے اذان پر پابندی لگائی جائے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بلا تفریق لوگوں کو پریشانی سے بچانا اسرائیلی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

دوسری طرف اسرائیل کے اس فیصلے کے بعد فلسطین سمیت دیگر عرب ملکوں میں اس قرارداد کی مذمت کی گئی ہے۔عمان،اردن،مصر سمیت کئی اسلامی ملکوں نے اسرائیل کے اس فیصلے کو مسلمانوں کی دل آزاری کا سبب قرار دیا ۔بالخصوص فلسطین بھر میں اس بل کے خلاف بھرپور احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔فلسطین میں بسنے والے عیسائی بھی اس فیصلے کے خلاف مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔فلسطینی عیسائیوں کا کہنا ہے کہ القدس میں اذان ہمارے لیے اعزاز ہے۔ایک چرچ کے پادری کا کہنا تھا کہ آج اذان پر پابندی لگائی جارہی ہے کل چرچ میں گھنٹہ بجانے پر پابندی لگادی جائی گی۔فلسطینی عوام کی طرف سے یہ کہا جارہاہے کہ اگر اسرائیلیوں کو اذان سے تنگی ہوتی ہے تو وہ ان کی مقبوضہ زمین کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔

اس کے علاوہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطینی مسلم رکن اسمبلی احمد طیبی نے اپنی تقریر کے دوران اذان کے کلمات بلند کرتے ہوئے اس قانون کی مذمت کرتے ہوئے کہا یہ نیتن یاہو حکومت کااسلام فوبیاہے،اس قانون سے بدترین قسم کی خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔جب کہ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک اور فلسطینی رکن ابوعرار نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران اذان دی اور اذان کے بعد اذان کی دعا بھی پڑھی۔ابو عرار کی اذان کے دوران اسرائیلی پارلیمنٹ کے یہودی ارکان شور شرابہ کرکے ابو عرار کو اذان سے روکتے رہے،لیکن انہوں نے کسی کی پروا کیے بغیر اذان مکمل کی اور دعا بھی پڑھی۔ حماس سمیت دیگر اسلامی تنظیموں نے بھی اسرائیل کو اس قانون کے رد عمل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا اسرائیل کو اس کے بھیانک نتائج بھگتنا ہوں گے۔اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطین سمیت دیگر مسلمان ممالک کی طرف سے آنے والی شدید مذمت کے بعداذان پر پابندی کی مجوزہ قرارداد پر 16 نومبر بدھ کے روز ہونے والی ووٹنگ کو فی الحال مؤخر کردیا ہے۔یادرہےالقدس سے35 کلومیڑکے فاصلے پرواقع فلسطینی شہر الخلیل جس میں دولاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں،وہاں اس بل سے قبل 2014 میں49 مرتبہ،دسمبر 2015 میں 52 مرتبہ اور گزشتہ مہینے 83 بارمساجد میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعے اذان دینے سے روکا گیاہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی مذمت کے باوجود اسرائیل اذان پر پابند ی کا قانون پاس کرلے گا؟اگر اسرائیل کے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو یقینا اسرائیل باوجود دنیا بھر کی مذمت کےدیگر قوانین کی طرح یہ قانون بھی پاس کرلے گا۔مسجد اقصیٰ میں اسرائیل کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں اور اقوم متحدہ کی قراردادوں کے باوجود فلسطینی زمین پر اسرائیل کی آباد کاری اس کی واضح مثالیں ہیں۔پھر اوبامہ حکومت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل کو دی جانے والی 36 بلین ڈالر کی فوجی امداد اورحال ہی میں اسرائیل نواز امریکی صدر ٹرمپ کی جیت کے بعد اسرائیل کی اسلام دشمنی اور اذان پر پابندی کے بل کو مزید تقویت ملے گی۔اس کا اندازہ ٹرمپ کے "یہودی نواز”اور اسلام مخالف "سٹیو بینن”کو خصوصی مشیر مقرر کیے جانے اور دیگر اسرائیل نواز پالیسیوں سے بھی لگایا جاسکتاہے۔

اسلامی شعائر کے ساتھ اسرائیل کے اس قدر بہیمانہ سلوک پر عالم اسلام کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔المیہ یہ ہے کہ مسلمان فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن عملا کچھ نہیں کرتے۔امریکہ نے اسرئیل کو 36 بلین ڈالر کی فوجی امداد دی اس پر مسلمان ممالک کے حکمرانون کی طرف سے امریکہ پرکوئی زور دیا گیا،نہ اقوام متحدہ میں اس قضیے کو اٹھایا گیا۔اس وقت ترکی کو عالم اسلام میں جو پذیرائی حاصل ہے،وہ کسی دوسرے ملک کو نہیں،مسلمان ترکی ہی سے قیادت کی امید لگائے بیٹھے ہیں،لیکن ترکی کے اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی واقتصادی تعلقات اور نئے اسرائیلی سفیر کی ترکی میں تعیناتی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہی ہے۔سفارتی تعلقات برابری کی سطح پر رکھے جائیں تو بہتر رہتا ہے،لیکن یہاں فلسطینیوں پر ہونےو الے مظالم کے خلاف اس نوعیت کی جدوجہد نہیں کی جاتی جس کی ترکی اور دیگر اسلامی ممالک سے توقعات ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ ترکی اسرائیل کی مسجد اقصی میں اذان کی پابندی کے بل پر کیا رد عمل دکھاتاہے۔

اگر اسرائیل یہ قانون پاس کرلیتا ہے تو امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی ہزیمت ہوگی۔اذان شعائر اسلام میں سے ہے جس کی تعظیم اور اقامت مسلمانوں پر واجب ہے۔ظاہر ہے شعائر پر حملہ اسلام پر حملہ ہے۔اس لیے عالم اسلام کو متحد ہوکر عملا اسرئیل کو ا س قانون کے پاس کرنے سے باز رکھنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔اس کے لیے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرکے اور بین الاقومی سطح پر اس معاملے کو اٹھاکر اسرائیل کو اس قانون سے رکوایاجاسکتاہے۔کیوں کہ دنیااس وقت اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ لگارہی ہےاوراسرائیل کا یہ قانون اظہاررائے کی آزادی کے سراسر خلاف ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے