بین الاقوامی قوانین کی آگہی سے شدت پسند ی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہے :احمر بلال صوفی

کسی بھی قسم کی دہشت گردی اقوامِ متحدہ کے چارٹر 2(4)کے خلاف ورزی ہے جس کے تحت نہ کوئی ملک اور نہ ہی کوئی گروہ کسی دوسرے ملک یا گروہ کے خلاف جارحیت کر سکتا ہے

دنیا میں کوئی ریاست آزاد اور خود مختار نہیں ہے بلکہ وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر سمیت بین الریاستی معاہدوں کی بھی پابند ہے،پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام مذاکرے سے خطاب

پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہے ،مدارس کا بیانیہ اقوامِ متحدہ کا چارٹر بننے سے پہلے کا ہے جس پر نظر ثانی کرتے ہوئے مدارس میں عالمی قانون کا مضمون پڑھایا جائے ۔ ان خیالات کااظہارمعروف ماہر قانون سابق وفاقی وزیر احمر بلال صوفی نے یہاں پر ایک مقامی ہوٹل میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام ایک مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

تقریب سے اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئر مین ڈاکٹر خالد مسعود اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے بھی خطاب کیا۔ احمر بلال صوفی نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پاکستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے عالمی قوانین کا پرچار کرے ۔دنیا میں کوئی ریاست آزاد اور خود مختار نہیں ہے بلکہ وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر سمیت بین الریاستی معاہدوں کی بھی پابند ہے اس وقت تک ریاستوں کے درمیان ایک کروڑ سے زیادہ باہمی معاہدے موجود ہیں جبکہ اقوامِ متحدہ کے2700والیمز بین الاقوامی قانون کے آ چکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان مین عالمی قوانین کی جانکاری بہت محدود ہے اور عام لوگ تو شاید جانتے بھی نہیں ۔انہوں نے کہا کہ جارحیت اقوامِ متحدہ کے چارٹر 2(4)کے خلاف ورزی ہے جس کے تحت نہ کوئی ملک اور نہ ہی کوئی گروہ کسی دوسرے ملک یا گروہ کے خلاف جارحیت کر سکتا ہے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تووہ دہشت گردی کے زمرے میں آئے گا اور یہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر1373جو اب قانون بن چکی ہے ا س کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔

اس قرار داد کے تحت ہر ملک دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی سالانہ کارگزاری فراہم کرنے کا پابند ہے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ریاست ،غیر ریاستی عناصر کی حمایت نہیں کر سکتی ۔احمر بلال صوفی نے کہا کہ جو لوگ پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں یا اس کے آئین کو نہیں مانتے وہ آرٹیکل 5کی نہ صرف نفی کرتے ہیں بلکہ پاکستان پینل کوڈ 121کے تحت ان کا یہ عمل پاکستان پر حملے کے مترادف ہے اس لئے انہیں عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کا بھی حق نہیں ہے ۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ بھارت نے اجمل قصاب کے خلاف اسی کوڈ کا استعمال کیا مگر پاکستان دہشت گردوں کے خلاف اس کوڈ کا استعمال نہیں کر رہا ۔احمر بلال صوفی نے کہا کہ پاکستان میں بارہ ہزار قوانین موجود ہیں جن کے تحت ریاست اپنے معاملات چلاتی ہے ان قوانین میں صرف ایک دو کے سوا تمام قوانین کو وفاقی شرعی عدالت نے اسلامی اصولوں کے مطابق قراردیا ہوا ہے ۔

مذاکرے سے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ عالمی قوانین کے تناظر میں اس وقت دنیا کے 17ممالک انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف قومی حکمت عملی بنانے کے مرحلے میں ہیں ۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیر مین ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ پاکستان کے قانون میں مسلمان کی تعریف موجود ہے مگر تکفیر والے اس کی پابندی نہیں کرتے۔ اسلامی دنیا میں عالمی قوانین پر توجہ نہیں دی اور اس سلسلے میں کافی کام کرنے کی ضرورت ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے