آنگن ٹیڑھا

صحافت کا جنون سر پر سوار تھا ایک طویل جدوجہد کے بعد صحافت میں قدم رکھا تو عرصہ دراز تک کسی نے پارلیمنٹ جانے ہی نہ دیا، کہا جاتا تھا کہ یہ تجربہ کار صحافیوں کا کام ہے، پھر ایک دن پارلیمنٹ کے باہر گیٹ نمبر ایک پر بھیج دیا گیا گویا وہ دن میرے لیے عید کا دن تھا، ان دنوں بھی وہاں پر کیمرے بھیجنے کا رواج نہیں تھا لیکن کسی مسئلے پر کچھ ارکان کا موقف درکار تھا تو ہم کیمرہ لیکر وہاں جا دھمکے،،

مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ایک خاتون اینکر میرے کام کے انداز جس کو اناڑی پن کہا جا سکتا ہے دیکھ کر طنزا مسکراتی رہی۔ میرے کیمرہ مین نے نشاندہی بھی کی جس پر میں صرف مسکرا ہی سکا تھا،، خاتون اینکر سے یاد آیا کہ ترک صدر کے دورہ پاکستان کے دوران پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا تھا، جس سے ترک صدر طیب اردگان نے خطاب کیا،، کوریج کیلیے جانا تھا لیکن سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کی سماعت کی وجہ سے ذرا تاخیر سے پہنچا تو اپنے موبائل فونز بند کرکے گاڑی میں ہی چھوڑ گیا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں نے کارڈ پر لکھی ہدایات کی پاسداری کی تھی بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ اگر فون اندر نہ لے جانے دیے گئے توواپس رکھنے آنا پڑے گا اور خدشہ تھا کہ وی وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے شاید پارلیمنٹ ہاوس کے اندر نہ جا سکوں گا۔

پارلیمنٹ ہاوس پہنچا تو پارلیمانی صحافیوں اور چند معروف اینکرز کے علاوہ بہت سے شوقیہ فنکار، سیلفی مافیا، اشتہار مافیا کے علاوہ بڑی تعداد میں خود ساختہ صحافی بھی نظر آئے جن کے ہاتھوں میں نہ صرف موبائلز تھے بلکہ وہ دھڑا دھڑ سیلفیاں لینے میں مصروف تھے،، موبائل نہ لانے کا ذکر کرکے اپنے بیوروچیف سے جھاڑ بھی کھائی لیکن پھر بھی ہمارا کام تو ٹی وی سکرین کا پیٹ بھرنے کیلیے دھڑا دھڑ ٹکرز، مسنگ کے ڈر سے نت نئے اینگلز تلاش کرنا ہے سو کرتے رہے۔ وہاں پر پابندی کے باوجود کچھ شوقیہ فنکاروں کو پارلیمانی گیلری میں جہاں موبائل فون کا استعمال منع ہے سیلفیاں لیتے اور ایوان کی تصاویر بناتے دیکھا۔ ان میں سے اکثریت کو میں نے گزشتہ دس سال میں پہلی بار پارلیمان میں دیکھا۔

اجلاس ختم ہوا تو پارلیمانی راہداریوں میں ایک کونے میں ایک سیلفی ماسٹر خاتون اینکر کو ترک صدر کے خطاب پر تبصرہ کرتے سنا تومیں یہ سن کر دنگ رہ گیا کہ وہ ترک صدر کے خطاب کے متن پر نہیں بلکہ یہ تبصرہ فرما رہی تھیں کہ ایوان میں کافی نشستیں خالی نظر آئیں،،، رات گئے معلوم ہوا کہ خاتون اینکر نے اپنے موبائل سے بنائی گئی تصاویر اور سیلفیاں ٹویٹ کی ہیں اور ساتھ میں حقائق کے برعکس تبصرہ نگاری بھی فرمائی ہے،، مجھے یہ دیکھ کر ترس بھی آیا اور حیرانگی بھی کہ انھیں پارلیمانی کاروائی کی الف ب تو دور کی بات کچھ بھی پتہ نہیں کہ اجلاس شروع ہونے سے پہلے جب ارکان آپس میں میل ملاقات کر رہے ہیں اور کئی ایک ٹولیوں میں موجود ہیں وہ تصویر لگا کر محترمہ نے لکھا کہ بہت سی نشستیں خالی پڑی ہیں جس پر مجھ سے رہا نہ گیا اور جواب میں کہہ دیا کہ محترمہ افسوس کا مقام ہے کہ آپ نے اجلاس شروع ہونے سے پہلے کی تصویر لگا کر پارلیمان کا مذاق اڑایا ہے جس پر انھوں نے بلاک کرکے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ پہلی بار کسی نے ٹویٹر پر بلاک کیا ہے۔

میں نے یہ بات کیوں کی کہ محترمہ کو پارلیمانی کاروائی کا علم نہیں؟ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ان کو اس بات کا پتہ ہوتا تو وہ اجلاس شروع ہونے سے پہلے کی تصاویر کو اجلاس کے دوران کی تصاویر کبھی نہ کہتیں،، شائد ان کے نزدیک ایوان کے دروازے کھلنا ہی اجلاس کے آغاز کا وقت تھا کاش وہ کسی سے پوچھ لیتیں کہ اجلاس کا آغاز توترک صدر کی ایوان میں آمد کے بعد دونوں ممالک کے قومی ترانے اور تلاوت و نعت سے ہوا تھا لیکن پوچھنے سے تو سینیارٹی پر حرف آتا ہے۔

انھیں پارلیمانی کی کاروائی کا ذرا بھی علم ہوتا تو وہ گیلری میں پارلیمانی صحافیوں کی طرح کاروائی کور کرتیں نہ کی سیلفیاں لینے میں مصروف رہتیں،، بحیثیت صحافی اور ایک پاکستانی کے میرے لیے یہ افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ شام سات سے گیارہ تک لاکھوں ووٹ لیکر منتخب ہونے والے ارکان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جیسے یہ سب آئین، قانون اور اخلاقی اقدار پر سو فیصد عمل پیرا ہوں، افسوس اس لیے بھی ہے کہ جنھوں نے نہ کبھی پارلیمنٹ دیکھی، نہ کبھی کاروائی دیکھی، نہ ہی پارلیمانی قواعد کے مطالعہ کرنا گوارا کیا وہ لوگ پارلیمنٹ پر حرف اٹھاتے ہیں،، افسوس اس لیے بھی ایک وقت میں دو دو جرم کرکے بھی خود کو آئین و قانون سے بالا سمجھنے والے یہ شوقیہ فنکار حق بات کا سامنا کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔۔

ویسے تو محترمہ نے مجھے ٹویٹر پر بلاک کر دیا ہے لیکن ان کی ٹویٹ کی جواب میں سینکڑوں لوگوں نے جہاں ان کی تصویر کو پارلیمان کے تقدس کی خلاف ورزی قرار دیا ہے وہیں دوران اجلاس کی تصاویر بھی شئیر کی ہیں اور کچھ سوالات بھی پوچھے ہین جن میں سے سب اہم سوال یہ ہے کہ کیا کسی ” مقدس ادارے” کیساتھ کوریج پر جائیں اور انھیں موبائل فون کے استعمال سے منع کیا جائے تو کیا وہ اپنے فون کا کیمرہ استعمال کرنے کی جراَت کریں گی؟؟ میرا بھی ایک معصومانہ سوال ہے کہ اپنے اینکری کے دور میں انھوں نے پارلیمنٹ، قومی اسمبلی یا سینیٹ کے کتنے اجلاسوں کی کوریج کی ہے یا ان کی کاروائی دیکھی ہے؟؟ مجھے ان کےتبصرے، تصویر نگاری اور ٹویٹس سے صرف ایک بات ہی سمجھ آئی ہے، ” ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا”

نوٹ: متعلقہ خاتون اینکر سے میری دو ملاقاتیں ہیں اور بحیثیت انسان میں ان کے حسن اخلاق کا معترف ہوں۔

کچھ مصنف کے بارے میں
بشیر چوہدری پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں، چینل 24 میں نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، پارلیمنٹ، سیاست اور خارجہ امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔
@bashirchauhry

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے