دینی مدرسے کےمظلوم استادکی دُکھ بھری داستان

درسِ نظامی سے فراغت کےبعد میں نےمفتیانِ کرام کے زیر سرپرستی چلنے والےملک کے ایک عظیم دینی ادارے میں ملازمت کیلیے اپلائی کیاتو مجھے ملازمت مل گئی، ابتدائی ایام تربیت میں تنخواہ کے بغیر کام کرنے کی شرط تھی پھر باقاعدہ جاب شروع ہوئی،مہینہ مکمل ھونے پر وظیفہ ملا مگر صرف پندرہ ایام کا ،اگلے ماہ پندرہ ایام کی تنخواہ کاٹ لی گئی . استفسار پر معلوم ہوا کہ تقرر اس ماہ کی یکم سے کیا گیا ھے لہِذاپچھلے پندرہ ایام کی تنخواہ کاٹی جا چکی ہے ۔

ملازمت کے ابتدائی سال ہی میرے کے والد انتقال فرماگئے . تین چھٹیاں لینی پڑی جن کی تنخواہ سےکٹوتی کرلی گئی ، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ استقلال نہ ہونے کی وجہ سے کٹوتی کی گئی ہے . دوسری جانب میرے بڑے بھائی گورنمنٹ ملازم ہیں جنہیں تنخواہ کاٹنا دور کی بات تجہیزوتکفین فنڈ سے اخراجات بھی ملے ۔

الغرض چھ سالہ مدت ملازمت میں کیا کچھ برداشت کرنا پڑا بیان سے باھر ہے. ابتدائی سالوں میں برانچ جزوقتی تھی اور ملازمین سے کام کل وقتی لیا جاتا تھا. چھٹی کے اوقات بھی کل وقتی کے حساب سے متعین تھے جبکہ تنخواہ جز وقتی کے حساب سےدی جاتی تھی . ایک سال گزرنے پر بندہ نے کل وقتی تنخواہ یا جزوقتی اوقات کے جائز مطالبے پر درخواست دی ، جس پر زونل ناظم برھم ہو گئے اور مجھ سے کہا آپ میں اخلاص اور للٰہیت نہیں ھے اور برانچ ناظم سے میرے اخراج کے متعلق مشاورت کی ۔درخواست چونکہ برانچ ناطم کے مشورہ سے لکھی گئی تھی اس لیے ان کی مداخلت سے ملازمت تو بچ گئی مگر تندوتیز جملوں کا سامنا بہرحال کرنا پڑا ۔

آدھی وال جھنگ میں ادارے کی نئی تعمیرہونے والی برانچ پراہلِ علاقہ نے سٹے آرڈر لےلیا تھا، قانونی گتھیاں سلجھانے کیلیے مختلف حکومتی محکموں میں چھٹی کےاوقات میں حاضر ہونے کیلیے مجھے پابند کردیاجاتا، پولیس اسٹیشن ، کچہری ،ایم پی اے آفس ایم این اے آفس پر حاضری معمول بن گیا تھا۔

ادارے کی دوسری برانچ میں ٹرانسفر کے بعد میرے پاس ذاتی موٹر بائیک ہونے کی وجہ سے برانچ سے باہر کے اکثرکاموں کی ذمہ داری بلا معاوضہ مجھ پر ڈال دی گئی جس میں طلباء اور عملے کو ایمر جنسی کی صورت میں ہسپتال تک لانا لے جا نا، دوسری برانچ اور جنرل بس اسٹینڈ تک ادارہ کے مرکزی زون آفس سے آنے والے افراد اور ذمہ داران وغیرہ کو پہنچانا، چھٹی کے بعد برانچ میں ناظم صاحب کے حکم پر گھنٹوں الیکٹریکل کام وخدمات بلا معاوضہ انجام دینا وغیرہ شامل تھا.

دوران سال شعبہ حفظ کے ایک معلم کو جبری فارغ کردیا گیا اور اس کی کلاس پڑھانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال دی گئی. بندہ چونکہ ان دنوں ادارے کے شعبہ اسکول سے منسلک تھا اور وہ دن موسم گرما کی سالانہ تعطیلات کے تھے تاہم مجھے پابند کردیا گیا کہ نیا انتظام ہونے تک آپ نے ہی کلاس سنبھالنی ہے جس کا معاوضہ دیا جائے گا ۔ میں‌نے تقریبا نصف ماہ سےزائد اس اضافی کلاس میں ڈیوٹی دی مگر معاوضہ نہیں دیاگیا ۔ مطالبہ کرنے پر کہا گیا کہ یہ عارضی ذمہ داری دوستانہ طور پر لی گئی ہے اس لیے آپ معاوضہ کےحقدار نہیں ہیں ۔

دورانِ ملازمت صرف ایک بار رائیونڈ اجتماع کیلیے دو چھٹیوں کی درخواست دی جو کہ سختی سے رد کردی گئی جبکہ ادارے کے بڑے حضرات ہر سال نفلی حج کیلیے چالیس روزہ قیام کے ساتھ حرمین شریفین کا سفر فرماتے ہیں جبکہ بے چارے ملازمین ادارے سے ملنے والی قلیل تنخواہ سے شاید ساری عمر میں ایک بار بھی عمرہ کے سفر کی گنجائش نہیں نکال پاتے ۔خود میرا وظیفہ بھی چھ سالہ مدت ملازمت میں 3500روپے ماہوار سے 9300روپے ماہانہ تک پہنچ پایا۔

دورانِ ملازمت 15سال تک سروس کرنے والے ملازمین کیلیے پینشن کی سہولت ،جیسے سبز باغ بھی دکھائے جاتے ہیں مگر پندرہ سال تک کسی ملازم کو ادارہ برداشت ہی نہیں کر پاتا ، بہت جلد ملازمت سے برطرفی کا پروانہ ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا ہے ۔

شنید ہے کہ ملازمین کو ادارے کے اکاؤنٹ سے فریضہ حج کی ادائیگی بھی کروائی جاتی ہے مگر یہ سہولت بھی صرف اپنے ہی منظور نظر بڑے عہدیداروں کیلیے ہے جس پر شیرینی بانٹنے والے نابینے کی مثل صادق آتی ہے

دینی ادارہ ہونے کی وجہ سے اکثر ملازمین عملہ حفاظ اور علماء پر مشتمل ہے مگر کسی کو بھی نمازِ ظہر کی ادائیگی اور امامت کیلیے مسجد میں جانے کی اجازت نہیں ہے اس لیے ایسے ملازمین جوآئمہ مساجد ہیں ان کو دشواری پیش آتی ہے۔

2009ء میں بندہ ادارے کی مرکزی برانچ چونگی امر سدھو لاھور میں تھا، مسجد ادارے سے متصل تھی ، نمازظہر مسجد میں ادا کی جاتی تھی ۔مفتی صاحب کا آرڈر جاری ہوا کہ کسی کوبھی مسجد جانے اجازت نہیں ہے ، تمام معلمین اپنے اپنے کلاس رومز میں نماز ادا کریں ۔

ملازمت کے آخری سال اکیس مارچ 2015ء کو بندہ معمول کے مطابق ادارہ میں حاضر ہوا۔ اگرچہ میری کلاس کو چھٹیاں تھی مگر مجھے حاضری کا پابند کیا گیا تھا اوردیگر اساتذہ کی معاونت کا کہہ دیا جاتا تھا۔ میں کلاس روم میں بیٹھا منزل (قرآن کریم کی دہرائی)پڑھ رھا تھا کہ ناظم کے دفتر میں طلب کیا گیا، حاضر ہونے پر ناظم صاحب کافی دیر خاموش رہنے بعد افسردگی کے ساتھ گویا ہوئے کہ مرکزی آفس سے بڑے حضرات کی کال آئی ہے کہ آپ سے معذرت کرلی جائے اورآپ کی آج کی حاضری کینسل کردی جائے۔

مجھے اچانک اس برطرفی وجہ بھی نہیں بتائی گئی جبکہ میرے معاملات کے بارے میں طلباء، اور طلباء کے والدین ، برانچ کے تدریسی و غیر تدریسی عملے سمیت کسی کو بھی کوئی شکایت نہ تھی

بعد ازاں مجھے بیس یوم کی تنخواہ دے دی گئی۔ سالانہ استحقاق روک لیا گیا ، وجہ یہ بیان کی گئی تعلیمی سال 31 مارچ کو مکمل ہوتا ہے آپ چونکہ 21مارچ کو فارغ کر دیے گئے تھے . اس لیے آپ کا سال مکمل نہیں ہے سوآپ مستحق نہیں ہیں .

میں افسردہ دل سے اپنے معاملات اللہ رب العزت کے سپرد کرتے ہوئے اقرا روضۃ الاطفال جھنگ برانچ سے گھر آگیااور سوچنے لگا کہ شائد میں ہی گناہ گار ، خطاکارہوں ۔ بڑے حضرات تو اپنے عہدوں پر دوام ، بھاری بھرکم تنخواہوں اور دیگر پر کشش مراعات کے ساتھ معصوم عن الخطاء ہیں۔

یہ صرف میرافرد واحد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دینی اداروں میں کام کرنے والے اکثر ملازمین اسی طرح کے ناگفتہ بہ حالات سے دوچار رہتے ہیں ۔ ایسے اداروں سے مستفید ہونے والے فارغ التحصیل افراد کی تعداد کم اورخارج کیے جانے والے عملے کی تعداد عموما زیادہ ہوتی ہے ۔

چھوٹے درجے کےملازمین کی ساتھ منتظمین کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جسے تحریر میں لانا آسان نہیں۔ مہتممین اور منتظمین کی ایک جماعت نے اپنی اجارہ داری قائم کر کے پورے طبقے کا استحصال شروع کر رکھاہے

وفاق المدارس نے بھی سوائے اپنی فیسوں کے شیڈول میں سالانہ اضافے کے کبھی اپنے ان ڈگری ہولڈرز کے استحصال پر آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی کوئی ضابطہ ،قانون اور تنخواہوں کا شیڈول وغیرہ متعین کیا ۔وفاق ایسا کرے بھی کیسے کیونکہ اس پر بھی استحصالی گروہ کی گرفت اور قبضہ ہے

میں‌ڈرتے ہوئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہیں ایکسرے گلاسز کی آنکھ اور چشمہ رکھنے والے نام نہاد صاحبانِ بصیرت وبصارت مجھ پر اخلاص اور للٰہیت کے معدوم ہونے کے ساتھ ساتھ خارج از اسلام ہونے کا فتوٰی ہی نہ صادر فرمادیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے