فیض چند یادیں

راولپنڈی میں ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘‘ کی تقریبِ رونمائی ختم ہوئی تو عابد علی سیّد نے بتایا کہ فیضؔ صاحب
نے یاد فرمایا ہے اس لئے مجھے اُن کے ہمراہ ایُوب مرزا کے گھر چلنا ہے اس پہ میں ذرا سا پریشان ہوا
اور سوچنے لگا کہ تقریب میں اپنی گفتگو سے کہیں فیضؔ صاحب کی دل آزاری کا مرتکب تو نہیں ہوا؟ میں
ملفوظاتِ فیضؔ ‘‘ (اندازِ نظر،لاہور،صفحات ۱۳۵ تا ۱۳۹) میں اور باتوں کے علاوہ اس حقیقت کی طرف بھی
اشارہ کیا تھا کہ:

’’ فیضؔ اور ندیمؔ ہماری ادبی دُنیا کی دو ایسی شخصیات ہیں جن کی عظمت ترقی پسند تحریک کے پس منظر میں
اُجاگر ہوئی تھی۔ ہمارے ادب اور تہذیب کو بہت کچھ دینے کے بعد ترقی پسند تحریک فکری اور تنظیمی انتشار کا شکار
ہو کر رفتہ رفتہ معدوم ہوئی تو یہ شخصیات ہمارے ہاں اس تحریک کا بدل بن کر رہ گئیں۔اب قریہ قریہ ان
شخصیات کے جشن منائے جاتے ہیں اور ان تقریبات کے بیشتر مضمون نگار فیضؔ اور ندیمؔ کی عظمت کی بنیادیں
اُن تصّورات اور اسالیب میں تلاش کرتے ہیں ترقی پسند تحریک جن کے خلاف شمشیرِ برہنہ بن کر نمودار ہوئی
تھی………اُن تقریباتی سرگرمیوں سے ذرا ہٹ کر ادبی اور تہذیبی منظر پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ
ہمارے ادب کی آنکھوں سے جنتِ ارضی کے خوابوں کی چکا چوند رخصت ہو چکی ہے اور ہم فقط حاضر و موجود کی
پرستش کے سحر، سامری میں مبتلا ہیں۔آورش فراموشی اور خود پرستی کے اس روّیے نے جس تہذیبی صورتِ حال
کو جنم دیا ہے اُس کی عکاسی خود فٰضؔ نے یوں کی ہے:
یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیشِ ہوس،تیغ بہ کف در پئے جاں ہے

چنانچہ بشیر موجدؔ ،ندیم نامہؔ میں فرمائشی مضامین کے انبار لگاتے ہیں اور ایُب مرزا فیضؔ کے ملفوظات مرتب کرتے
ہیں۔مُردہ پرستی کے مخالف فیضؔ نمبر اور ندیمؔ نمبر کی صورت میں خراج، تحسین پیش کرتے ہیں۔ہر دو شخصیات اس
قدر دانی کی مستحق ہیں مگر ان کی ذات کے گرد روشنی کا ہالہ جتنا پُر کشش اور مسرّت انگیز منظر پیش کرتا ہے ان کے
نظریات اور تصورات کے گرد دھند اتنی ہی المناک تصویر پیش کرتی ہے۔‘‘

ہر چند میں نے یہ سوال بڑی دردمندی کے ساتھ اٹھایا تھا تا ہم اچانک بلاوہ پر اس اندیشہ میں مبتلا ہو گیا کہ کہیں یہ سوال فیضؔ صاحب کی طبع نازک پر گراں نہ گزرا ہو۔سامنا ہوتے ہی فیضؔ صاحب نے کہا:

’’ ہم نے سوچا آج بات ہو جائے۔بات تنہائی میں ہو گی۔لوگوں کو رخصت ہو لینے دو۔‘‘

لوگوں کے رخصت ہوتے ہوتے رات ڈھلنے لگی۔ یہ جون ۱۹۷۷ء ؁ کی بات ہے جب بھٹوؔ حکمران تھے اور سول اور فوجی بیوروکریسی کے لوگ فیضؔ صاحب پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے ادیُب مرزا کے ہاں جمع تھے۔خدا خدا کر کے بھیڑ چھٹی تو فیض؂ صاحب نے آغا ناصر سے کہا کہ وہ اسلام آباد جاتے ہوئے راستہ میں مجھے گھر چھوڑتے جائیں اور مجھ سے یوں مخاطب ہوئے:

’’اس طرح نہیں۔تم لاہور آؤ۔ندیمؔ صاحب کی موجودگی میں بات ہو گی۔اس طرح غیبت ہو جاتی ہے۔‘‘

میں نے جواب دیا: ’’ فیضؔ صاحب میں کون ہوتا ہوں؟ آپ دونوں ایک دوسرے کا اس قدر احترام کرتے ہیں۔باہم گفت وشنید کیوں نہیں کرتے؟‘‘
بعد ازاں دریافت کرنے پر ندیمؔ صاحب نے بتایا کہ:

’’ فیضؔ صاحب دو تین مرتبہ تشریف لائے تھے۔خوب گپ رہی مگر کوئی سنجیدہ نظریاتی گفتگو نہ ہو پائی۔شاید اس لئے کہ ہر مرتبہ مجلس میں بہت سے لوگ موجود تھے۔‘‘

میں جب بھی فیضؔ صاحب کی شخصیت کا خیال کرتا ہوں اُن کا یہ جملہ میرے کانوں مین گونجنے لگتا ہے__________‘‘ اس طرح نہیں اس طرح غیبت ہو جاتی ہے۔۔‘‘

اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں اس سچے اخلاقی احساس کے حامل لوگ کتنے ہیں؟ میں سوچتا ہوں اور سوچتا رہ جاتا ہوں۔

ایک کڑکتی دوپہر ایوب مرزا آن وارد ہوئے۔بہت جوش میں تھے۔کہنے لگے:

’’ شام کو میرے ہاں دوستوں کا اجتماع ہے۔فیضؔ صاحب آئے ہیں،افریشیائی ادیبوں کی تنظیم قائم کرنا چاہتے ہیں،لاہور میں صفدر میر کو کنوینیر بنا آئے ہیں اور یہاں تمہیں کنوینیر نامزد کرنا چاہتے ہیں، شام کو پانچ بجے ذرا وقت سے پہلے ہی پہنچنا۔‘‘
میں حیران ہوا:

’’ فیضؔ صاحب کا حکم سر آنکھوں پر مگر میں تو ایک یونیورسٹی ٹیچر ہوں، قواعد شاید اس کی اجازت نہ دیں ۔خواجہ مسعودؔ یا احسن علی ؔ خان زیاد ہ مناسب رہیں گے۔ آؤں گا، بات ہو گی۔‘‘

شام کو بہت شفقت اور تعجب کے ساتھ فرمایا : ’’ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ تمہاری یونیورسٹی سرکاری ہے۔‘‘
میں نے عرض کیا:

’’ فیضؔ صاحب ایک اور سوال بھی ہے۔ بین الاقوامی تنظیم سے پہلے ادیبوں کی قومی تنظیم بھی ہونی چاہئے۔‘‘
اس سوال پر فیض ؔ صاحب اداس ہو گئے:

’’ بھئی ہونا تو یہی چاہئے مگر یہاں یہ نہیں ہو سکتا۔کئی بار کوشش کی۔ادیبوں کو اکٹھا کرنا بہت مشکل اور لمبا کام ہے۔اس وقت میں جلدی میں ہوں اور چاہتا ہوں کہ چند ہفتے بعد ماسکو اجلاس میں پاکستان کو اس تنظیم کا رکن بنوا دوں اس طرح اس بین الاقوامی اجتماع میں پاکستان کا جھنڈا تو لہراتا ر ہے گا۔‘‘
تھوڑے سے توقف کے بعد فرمانے لگے:

’’ میری شرکت تو لیننؔ انعام کی بدولت ہے۔پاکستان کو اس تنظیم کا رکن ہونا چاہئے تاکہ میرے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہ پڑے اور جہاں دوسرے ممالک کا ، ہندوستان کا جھنڈا ہو وہاں پاکستان کا جھنڈا بھی لہراتا رہے۔‘‘

صرف چند ماہ بعد جب فیضؔ صاحب کے انتقال کی خبر سنی تب احساس ہوا کہ فیضؔ صاحب تو کُوچ کی تیاریوں میں مصروف تھے اور اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے یہ اطمینان کر لینا چاہتے تھے کہ جن بین الاقوامی اجتماعات میں ان کی ذات پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا کرتی تھی ان کے بعد بھی وہاں پاکستانی پرچم سر بلند رہے گا۔یہ ہے وہ سچی اور رچی ہوئی پاکستانیت جو فیضؔ صاحب کی جہدِ حیات اور مجاہدہء فن ہر دو کا جلی عنوان ہے اور جس کو سامراج اور اس کے مقامی حلیفوں نے ہمیشہ ہدف، طعن بنائے رکھا۔وہ پاکستان میں ایک ایسا انقلاب دیکھنے کے آرزو مند تھے جس کے نتیجے میں پاکستان کی مفلس اور نادار اور بے زبان اور بے کس مخلوق تاجدارِ جہاں ہی نہیں والی ء ماسوا بھی بن سکے،پاکستان صحیح معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار مملکت کہلا سکے اور پاکستانی ایک روشن خیال اور غیرت مند قوم کا نام پا سکے۔اس اعتبار سے فیضؔ صاحب ایک آفاقی شاعر ہی نہیں ہمارے قومی ہیرو بھی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے