"الائمہ من القریش” کا التباس فکری

امام حسین کی شہادت کو تاریخی تناظر میں دیکھنا اس اندوہ ناک حادثہ کی شدت میں کمی کا باعث تو نہیں ہو سکتا، البتہ اس سے ہمیں اس نکتہ کی تفہیم میں مدد مل سکتی ہے کہ "الائمہ من القریش” کے التباس فکری نے آنے والے دنوں میں ہمارے فکری اور نظری سفر پر کتنے منفی اثرات مرتب کئے۔

"الائمہ من القریش” امر واقعہ کا بیان تو ہو سکتا ہے لیکن فلسفہء خلافت کی کلید نہیں کہ اس کی زد راست قرآن کے آفاقی پیغام (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم) پر پڑتی تھی۔ پھر قرشی سیادت کا یہ تصور اپنے اندر تقسیم در تقسیم کے امکان کا حامل تھا۔ آگے چل کر سیادت کے قرشی دعویدار ہاشمی، طالبی، علوی اور بالآخر حسینی دائرے میں محصور ہو گئے۔

تاریخ کے تحلیل و تجزیہ میں ہمیں اس نکتہ کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے کہ قرشی سیادت کے تمام دعویدار خواہ وہ آگے چل کر اموی، عباسی اور فاطمی خلافتوں میں متشکل ہوئے ہوں یا ابن زبیر کی نو سالہ خلافت ہو یا ائمہ آل بیت کے وقتا فوقتا خروج، یہ سب کے سب قرابت رسول کے حوالے سے ہی اپنی سیادت پر دلیل لاتے تھے۔ اگر ایک طرف یہ حضرات باہم ایک دوسرے کے مقابل اور متحارب تھے تو دوسری طرف آپس میں ان کی قریبی رشتہ داریاں تھیں، گویا مسئلہ قیادت پر ان کا یہ اختلاف خالصتا سیاسی نوعیت کا تھا جو بنیادی طور پر اس discourse کا پیداکردہ تھا جس کے مطابق قرشی ہونا سیادت پر دعویداری کے لئے کلیدی حوالہ بن گیا تھا۔

ایک بار جب قرابت رسول کی یہ بحث چل نکلی تو پھر ہاشمی، طالبی، علوی، فاطمی جیسے مزید چھوٹے دائروں کا پیدا ہونا فطری تھا۔ ابتدائے عہد کی سیاسی تاریخ جہاں قرشی اقارب کی تلواریں آپس میں الجھ گئیں بڑی قیمتی زندگیوں کے زیاں کا سبب بنی۔ طلحہ اور زبیر خانہ جنگی کا شکار ہوئے، ابن زبیر کی نو سالہ خلافت بالآخر ان کی اندوہ ناک شہادت پر ختم ہوئی۔ حسین ابن علی وطن سے دور صحرائے کربلا میں مظلومانہ شہید کر دئیے گئے۔ سیاسی نزاع نے خود اموی عباسی حکمراں خانوادوں کے اندر باہمی خونریزی کو جنم دیا۔ یہ وہ حوادث تھے جو امت کو پیش آتے رہے۔

اسے اگر محض تاریخ کے طور پر پڑھا جاتا تو ہمارے لئے اپنے فکری انحراف اور عملی غلطیوں کی نشاندہی کچھ مشکل نہ ہوتی۔ لیکن ہوا یہ کہ ہم ابتدائے عہد کے سیاسی اختلافات کو جسے تفضیل و مناقب کی روایتوں کے سبب مذہب کی زبان مل چکی تھی، تاریخی بیان کے بجائے تقدیس کا حامل سمجھنے لگے۔ ہم ان معرکہ آرائیوں میں فریق بن گئے جس کے لئے خدا نے ہمیں مکلّف نہ کیا تھا اور جہاں زمانی بُعد کے سبب ہمارا داخلہ ممکن نہ تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے