عمران خان اور میاں بشیر کی روحانی قانون دانی

کاش، میاں بشیرآج زندہ ہوتے تو عمران خان کتنے بکھیڑوں سے نجات پا لیتے۔ سپریم کورٹ کے پھیروں سے بچ جاتے۔ اسد کھرل کی تحقیقی کتاب پیش کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ 686 صفحات شواہد کے نام پر ڈبوں میں بند کرکے عدالت میں جمع نہ کرانے پڑتے۔ دیرینہ رفیق اور ممتاز وکیل حامد خان پر عدم اعتماد کا اظہار نہ ہوتا۔ نعیم بخاری سے مایوس نہ ہوتے۔ اعتزازاحسن سے ناں نہ سنتے۔ بابراعوان سے امیدیں نہ باندھتے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے، عدالتی معاملات میں میاں بشیرکا کیا لینا دینا۔ دوستو، وہ بہت گنوں والے روحانی بابے تھے، جن کا کہا ، بقول عمران خان، حرف بحرف درست ثابت ہوتا تھا۔ بات عدل کی ہے تو اس وقت اسی حوالے سے ان کے روحانی تصرف کا ذکر ہوگا۔

1996ء میں دو برطانوی کرکٹروں، آئن بوتھم اور ایلن لیمب نے بال ٹمپرنگ کے معاملے میں عمران خان کے بیان پر ان کے خلاف ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر دیا۔ اس مقدمے کے لیے عمران خان نے چوٹی کا وکیل کیا، جس کا خیال تھا کہ کامیابی کا امکان دس فیصد سے زیادہ نہیں کیونکہ بوتھم قومی ہیرو ہے۔ وکیل صاحب کا رنگ اڑنے سے پیش تر ہی زرد تھا ، اس لیے انھوں نے عمران خان سے کہا کہ وہ عدالت سے باہر ہی معاملہ طے کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ہارنے پر بھاری رقم ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ عمران خان کو اپنے موقف پر اعتماد تھا، اس لیے وہ قانونی جنگ لڑنے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے۔

مقدمے کی کارروائی آگے بڑھی تو کپتان کو لگا کہ صورت حال ان کے موافق نہیں تو انھیں یہ فکر دامن گیرہوئی کہ مقدمہ ہارگئے تو دیوالہ نکل جائے گا۔ ادھارپکڑنے یا بیوی سے مالی اعانت قبول کرنے کے خیال ہی نے انھیں ڈرا دیا۔ اوپر سے نوزائیدہ پارٹی کو بھی دھچکا لگتا۔ عمران خان نے مایوسی کے عالم میں میاں بشیر کو فون لگایا۔ دعا کی درخواست کی۔ انھوں نے بتایا: ’’جج تمھارے خلاف ہے۔‘‘ حضرت صاحب کو لاہور بیٹھے بیٹھے جج کی منشا معلوم ہوگئی۔ وکیل جارج کارمن نے شکست کے لیے ذہنی طور پرعمران کو تیار کرنا شروع کردیا۔ وکیل نے جج پر اپنے موکل کے ساتھ تعصب برتنے کا الزام بھی لگایا۔

مایوس کن حالات میں تحریک انصاف کے چیئرمین کو ایک دوست کا پیغام ملا کہ میاں بشیر ان سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس پرعمران نے روحانی گرو کو فون کیا تو انھوں نے خوشی خوشی بتایا : ’’ اللہ جیوری کے خیالات بدل رہا ہے۔‘‘ پہلے جج کے خلاف ہونے کی بات درست نکلی اوراب جیوری imran khanکی سوچ میں تغیرکا اندازہ لگایا جو صحیح ثابت ہوا۔ قصہ کوتاہ یہ کہ عمران خان مقدمہ جیت گئے۔ بوتھم جس طرح 1992 ء کے ورلڈ کپ فائنل میں وسیم اکرم کی گیند پر اپنے آؤٹ کو آج تک صحیح نہیں مانتے، اسی طرح اس مقدمے میں ہار کا بھی انھیں اب تک یقین نہیں آتا۔

پانامہ لیکس کا معاملہ عمران خان سپریم کورٹ لے کرگئے ہیں۔ عجب بے یقینی کا عالم ہے۔ اب تک کی کارروائی سے لگ رہا ہے کہ معاملہ عمران خان کے حق میں نہیں جا رہا، جس سے کپتان مضطرب ہے۔ میاں بشیر ہوتے تو اپنے روحانی کمالات سے سپریم کورٹ کے ججوں کے ذہن میں کیا ہے، اس بابت عمران خان کو بتا کر، ان کی بے چینی ختم کر دیتے۔ میاں بشیرکے بعد عمران خان نے اور بھی روحانی گرو تلاش کئے لیکن ان کی طرح کسی اور نے ان کے درد کا درماں نہیں کیا۔

خورشید ندیم نے ایک درویش کے بارے میں لکھا تھا کہ موصوف نے 2013 ء کے انتخابات سے پہلے مریدین کو یقین دلایا تھا کہ نوازشریف وزیراعظم تو کجا رکن اسمبلی بھی نہ بنیں گے ۔ ہمارے ایک جاننے والے ان درویش صاحب کے کہے کو حرف آخر مانتے ہیں، ہم نے جب نوازشریف کے وزیراعظم نہ بننے سے متعلق پیش گوئی غلط ثابت ہونے کا جتلایا تو کہنے لگے کہ الیکشن میں دھاندلی بہت ہوئی اس لیے نوازشریف وزیراعظم بن گئے۔ ہم نے ان سے کہا کہ جس روحانی عینک سے آپ کے درویش صاحب کو یہ نظرآرہا تھا کہ نوازشریف وزیراعظم نہیں بن سکیں گے، کیا اس سے انھیں انتخابات میں ہونے والی دھاندلی دکھائی نہیں دے رہی تھی؟ اس معصومانہ سوال کا ہمارے دوست سے کوئی جواب نہ بن پایا۔

 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے