سینٹر ساجد میر کو کس نے اشارہ کیا

یہ فیصلہ کون کرے گا کہ دائرہ اسلام میں کون ہے اور باہر کس کو کرنا ہے ؟کیا مذہب کے نام پر دوکان چمکانے والوں کو یہ اختیار دیا جا سکتا ہے یا ریاست یہ حق اپنے پاس رکھے ۔

یہ سوال اس وقت پھر اہمیت اختیارکر چکا ہے جب ایک مکتبہ فکر کے قائد نے یہ کہہ کر پٹاخہ چھوڑ دیا کہ جن صاحبان کا نام نئے آرمی چیف کے طور پر آنا ہے ان میں سے ایک قادیانی ہے۔

قوم نے ان کا یہ ویڈیو پیغام سنا تو ماتھا ٹھنکا
یہ قوم تو فوج سے محبت کرتی آئی ہے اس محبت میں کمی پرویز مشرف کے دور میں آئی تاہم اشفاق پرویز کیانی نے ہر فوج کو سیاست سے دور رکھا اور اس طرح فوج کی عزت کی بحالی کا سفر شروع ہوا۔

جنرل راحیل شریف نے فوج کی عزت اور وقار کے لیے سب کچھ داﺅ پر لگا دیا ۔آپریشن ضرب عضب کا آغاز کر کے اس ملک کے ایک بڑے طبقے کو للکارا
یہی نہیں دہشت گردی کی اس جنگ میں انہوں نے سول قیادت کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے لیے ملٹری کورٹس کا فیصلہ کیا ۔

قوم نے اس فیصلے کو سراہا اور پھر فوج نے دہشت گردوں کو انہیں عدالتوں کے ذریعے پھانسی کے پھندوں تک پہنچا کر ثابت کر دیا کہ
یہ فیصلہ غلط نہیں تھا ۔ایرانی صدر کے دورہ کے موقع پر یادیو کلبھوشن کی گرفتاری کو عام کر کے یہ پیغام دیا گیا کہ اب مذہب کے نام پر کوئی بھی ریاست پاکستان کا جذباتی استحصال نہیں کر سکتی ۔

ہر اہم تہوار پر راحیل شریف بارڈر پر اپنے جوانوں کے ہمراہ دکھائی دیے۔یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں کہ چائنہ اقتصادی راہداری کے منصوبہ کی ضمانت بھی فوج نے دی تب جا کر اس پر عملدرآمد شروع ہو ا۔ راحیل شریف نے عوام میں اس قدر پذیرائی حاصل کی کہ قوم کی خواہش تھی کہ انہیں مزید آرمی چیف کی حیثیت سے توسیع دی جاتی
لیکن انہوں نے اس بار بھی عوام کے دلوں میں مزید جگہ بنا لی جب یہ اعلان کیا کہ وہ مزید توسیع کے قائل نہیں ۔ یہ عزت اور وقار راحیل شریف کا نہیں بلکہ فوج کا تھا ایک ادارے کا تھا ۔

سینیٹر ساجد میر نے اس فوج کی عزت اور وقار کے محل کو اس وقت زمیں بوس کرنے کی کوشش کی جبآرمی چیف کی تبدیلی کا وقت آیا چاہتا ہے ۔پہلے موصوف نے ویڈیو جاری کی کہ چار جرنیلوں میں ایک قادیا نی ہے ۔پھر کہا کہ ان کی تسلی ہو گئی ہے سوال یہ ہے کہ اس موقع پر ان کی جانب سے ایک جرنیل پر نہیں بلکہ ایک ادارے پر الزام لگایا گیا
اور پھر نام واضح نہ کرکے ان چاروں کے متعلق شبہات پیدا کر دیے ۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ موصوف اہلحدیث مکتبہ فکر کی نمائندگی کا دعوٰی رکھتے ہیں تاہم ان کا اپنا حال یہ ہے کہ اتحاد امت کانفرنس میں جہاں تمام مکتبہ فکر کو دعوت دی گئی وہیں چند سیاسی اختلافات اور چند مساجد یا یوں کہہ لیں کہ چندے کے اڈوں پر انہوں نے اپنے ہی ہم مسلک جماعتوں جن کی قیادت پروفیسر حافظ محمد سعید اور ابتسام الہی ظہیر کر رہے ہیں ان کو اتحاد امت سے باہر کرتے ہوئے دعوت دینا بھی مناسب نہ سمجھا ان کا اپنے ظرف کا یہ حال ہے ۔

اب قوم بھی یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہے بلکہ ریاست کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے کہ
ایک مذہب کا لباس پہن کر کوئی کس طرح اتنابڑا الزام لگا سکتا ہے ۔اس کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو بنیاد بنا کر نفرتیں پھیلتا رہے ۔ایک ملک کے ادارے کے اعلیٰ افسران پر اس طرح کے الزامات کوئی عام بات نہیں ۔

پھر مذہبی منافرت کو ہوا دی گئی اور خود اس ادارے میں موجود لوگوں کو شک و شبہات میں مبتلا کرنا ادارے کی ساکھ تباہ کرنے کے مترادف ہے، پہلی ویڈیو کے بعد میری کچھ کارکنان سے بات ہوئی میں نے وضاحت جاننا چاہیے ۔

لیکن دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی طرح
ان کا بھی ایک ہی جواب تھا کہ یہ ہمت اور جرات صرف ہمارا قائد ہی کر سکتا ہے ۔ میں نے کہا حضور ! پھر آپ کے قائد نے اتنی ہمت کیوں نہ کی کہ اس کا نام بھی عوام کو بتا دیا جاتا ۔

تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا
لیکن یہاں ان کی ہمت سجدے میں چلی گئی
بدقسمتی سے کارکنان مذہبی ہو ں یا سیاسی ۔۔یہ کالانعام ہو تے ہیں اپنی عقل شعور سب کچھ اپنے قائد کے پاس گروی رکھ دیتے ہیں ۔

اب ریاست کو بیدار ہونا چاہیے ۔۔ہم نے بہت نقصان اٹھا لیے ۔۔نفرتیں بہت پال لیں ۔۔اب نفرتوں کے خاتمہ کا وقت ہے ۔

تو نفرتوں کو ہوا دینے والوں کو کٹہرے میں لانا ریاست کا کام ہے. اپنی خواہش پر دائرہ اسلام سے باہر نکالنے والوں کا احتساب کریں گے تو ہی دہشت گردی کی اس جنگ میں کامیابی ممکن ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے