نیا آرمی چیف اور عقیدے کی بحث

علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال مرحوم نے اپنی خود نوشت سوانح ’’اپنا گریبان چاک‘‘ کے نویں باب کے لیے ’’عدل گُستری‘‘ کا عنوان باندھا ہے ۔ اس باب میں انہوں نے اپنی بطور جج لاہور ہائی کورٹ اور پھر وہیں چیف جسٹس سے لے کر سپریم کورٹ کے جج بننے تک کی حالات وواقعات کا ذکر کیا ہے ۔

انہوں نے کچھ واقعاتی شواہد کی بنیاد پر جج صاحبان اور جوڈیشل افسران کی رشوت ستانی ، سیاسی افراد کی شرمناک حد تک خوشامد، تقرریوں اور ترقیوں میں سیاسی و حکومتی افراد کی ناروا دخل اندازی اور فیصلوں میں مجرمانہ قسم کے ھیر پھیر کا ذکر کیا ہے ۔ یہ دلچسپ باب ہے لیکن یہاں اس باب کے بالکل آخر کی کچھ سطور کا حوالہ شامل کرکے ملک میں کچھ دنوں سے جاری ایک بحث پر بات کریں گے ۔

ہوا یوں کہ جسٹس جاوید اقبال کا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو انہیں اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے بلوایا اور اس خواہش کا اظہار کہ وہ انہیں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پربدستور رکھنا چاہتے ہیں ۔یہ اکتوبر 1986ء کے آس پاس کا واقعہ ہے ۔

مسٹر جونیجو نے اس مقصد کے لیے ایک حیلہ بھی تجویز کیا کہ جسٹس جاوید اقبال کو ریٹائرمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا جج بنا دیا جائے اور پھر انہیں وہاں سے دوبارہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تعینات کر دیا جائے۔

جسٹس جاوید اقبال نے جواب دیا:’’میں اس کیفیت میں واپس چیف جسٹس کے طور پر لاہور آنا نہ چاہوں گا۔ اگر آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں میرا بطور جج تقرر ہو تو مجھے منظور ہے ۔لیکن واپس لوٹ کر اپنے کسی جونیئر رفیق کا چیف ججی کا حق مارنا مجھے پسند نہ ہو گا۔‘‘پھر (جونیجو نے)فرمایا:’’آپ اپنی جگہ چیف جسٹس بننے کی سفارش کس کی کریں گے ؟‘‘۔میں نے کہا :’’میرے بعد سب سے سینئر جج سعد سعود خان ہیں، جو لائق بھی ہیں اور قابلِ ستائش بھی ۔‘‘’’مگر وہ تو قادیانی ہیں۔‘‘جونیجو نے اعتراض کیا۔ ’’سر! اول تو وہ اعلانیہ کہتے ہیں کہ میں قادیانی نہیں ہوں۔ دوم وہ جمعہ کی نماز بھی ہمیشہ ای جی اوآر کی مسجد میں پڑھتے ہیں جہاں دیگر مسلمان پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ قادیانی بھی ہوں تو کیا مذہبی عقائد کے سبب ان کی سینیارٹی اور میرٹ کو نظر انداز کر کے ان کا حق مارنا جائز ہے؟‘‘اس سوال کا جواب جونیجو کے پاس کوئی نہ تھا۔”

جسٹس (ر) جاویداقبال آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’میری ریٹائرمنٹ کے روز ہی مجھے سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں میرا رخصتی ریفرنس ہوا۔ میرے رفقاء نے بڑے تپاک اور محبت سے مجھے الوداع کیا۔جسٹس سعد سعود خان کا تقرربھی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر کر دیا گیا ۔ مگر انہیں اپنی لیاقت اور سینیارٹی کے باوجود لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے اس لیے محروم رکھا گیا کہ وہ قادیانی سمجھے جاتے تھے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا ، وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی منصب پر ’’غیر مسلم‘‘ کا استحقاق ہوتو اسے محروم رکھنا کہاں کا اسلام ہے؟میں جب کبھی اس بات پر غور کرتا ہوں تو ندامت سے مجھے پسینہ آنے لگتا ہے۔ ہمارے یہاں ماضی میں اپنی سینیارٹی کے لحاظ سے غیرمسلم ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ مگر وہ قائداعظم کی تعلیمات کا اثر تھا۔ اب ہم پر ضیاء الحق کے متعصب قسم کے اسلام کا اثر نفاذ تھا جس کے سامنے کوئی بول سکنے کی جرأت نہ رکھتا تھاکیونکہ ہم ضمیر کی آزادی سے محروم تھے۔ بلکہ بقول اقبال سلطانی وملائی وپیری کا ’’کشتہ‘‘ بن چکے تھے‘‘

اس اقتباس میں بنیادی طور پر اصول کی بات کی گئی ہے ۔اگر کوئی شخص اپنی لیاقت کی بنا پر کسی عہدے کا اہل ہے اور اس میں کوئی آئینی رکاوٹ بھی نہیں ہے تو وہ عہدہ بجا طور پر اس کا استحقاق ہے ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے 29نومبر کو ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد سے نئے چیف کے بارے میں ان دنوں ملک کے مختلف حلقوں میں گرما گرم بحث جاری ہے ۔

اخباری نجومی بھی روز اپنے اندازوں اور خواہشوں کو تجزیہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ کچھ اخبارات نے تو جلدی میں خصوصی صفحات بھی شائع کر دیے ہیں ۔ برسراقتدار جماعت کے وہ وزراء جن کے چہرے ابھی کچھ دن قبل تک اُترے ہوئے تھے ،اب ہشاش بشاش نظر آتے ہیں اور آرمی چیف راحیل شریف کی مدح میں رطب اللسان ہیں ۔

ہماری سیاست کا ماضی ایک ملڑی سول مکس کھیر کی طرح کا ہے اور ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہونے کی وجہ سے یہاں عسکری عہدوں کے بارے میں لوگ کافی دلچسپی ظاہر کرتے ہیں ۔ جمہوری ریاستوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں یہ چیزیں طے شدہ اصولوں کے مطابق چلتی رہتی ہیں ۔ وہاں ہمارے خطے کی طرح کا غبار بھی نہیں اڑایا جاتا۔

ہمارے ہاں اس وقت لوگوں میں نئے آرمی چیف کے بارے میں کافی تجسس پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جن افسران کے نام زیر غور ہیں ان میں سے ایک کے بارے میں یہ بات شدت سے پھیلائی جارہی ہے کہ وہ قادیانی ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ یہ شُرلی مسلم لیگ نواز کی جانب سے سینیٹراور مذہبی رہنما پروفیسر ساجد کی جانب سے چھوڑی گئی ہے۔

فیس بک پر بہت سے لوگوں کا اصرار ہے کہ کسی بھی صورت قادیانی کو یہ عہدہ نہیں دیا جانا چاہیے ۔ وہ اسے پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک خطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔ میرے خیال میں اس معاملے میں حد سے بڑھے ہوئے جذباتی اظہاریوں کے بجائے اصول کی بات کی جانی چاہیے ۔ کوئی بھی شخص جو اس عہدے کی لیاقت اور قابلیت رکھتا ہے اس کو آرمی چیف بنادیا جانا بہتر ہے ۔

میری معلومات کے مطابق پاکستان کا آئین کسی غیر مسلم کے اس عہدے پر فائز ہونے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے ۔ گو کہ یہ 73ء کے آئین سے پہلے کی بات ہے لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ مسیحی جج جسٹس اے ۔آر کانیلیس پاکستان کے چوتھے چیف جسٹس رہ چکے ہیں ۔ اس کے بعد وہ یحییٰ خان کی کابینہ میں کچھ عرصہ وزیر قانون بھی رہے ہیں۔ان کے خیالات کی ایک جھلک معروف بزرگ صحافی الطاف حسن قریشی کے اس انٹرویو میں دیکھی جا سکتی ہے جو انہوں نے پچاس کی دہائی میں کیا تھا۔ یہ انٹرویوان کی کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی گراں قدر کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا!‘‘ میں شامل ہے۔

اس سے قبل متحدہ ہندوستان نے جوگندر ناتھ منڈل کا انتخاب جناح صاحب نے مسلم لیگ کی جانب سے وزیر کے طور پر کیا تھا ۔ وہ صوبہ بنگال کے وزیر قانون بنے تھے۔ پھر تقسیم کے بعد جب جناح صاحب نے گورنر جنرل کی حثیت سے حلف اٹھایا تو آئین ساز اسمبلی کے اس اجلاس کی صدارت بھی جوگندرناتھ منڈل نے کی تھی ۔

اس کے علاوہ پاکستان میں قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر جسٹس رانا بھگوان داس بھی فائز رہ چکے ہیں اور اپنی بہترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت اچھی شہرت کے ساتھ رخصت ہوئے ۔

ہم اس فہرست میں جمشید مارکر کانام بھی لے سکتے ہیں جو پاکستان کے بہترین سفارت کار رہے اور ان کا نام کسی بھی شخص کے سب سے زیادہ ممالک میں سفیر رہنے کے طور پر ’گینزبک آف ورلڈ ریکارڈز‘ میں شامل ہے ۔ وہ پاکستان کے اقوام متحدہ میں چوٹی کے مندوبین میں شمار کیے جاتے تھے اور دنیا میں سب سے زیادہ مدت تک بطور سفیر کام کرنے کا اعزاز رکھتے تھے۔

ذرا پیچھے چلے جائیں تو پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان بھی قادیانی تھے ، عقیدے کی بنیاد پر ان کے ساتھ اختلاف کی گنجائش بہرحال تھی اور وہ کافی شدت کے ساتھ ہوا بھی لیکن ان کے بارے میں پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے دنیا میں پاکستان کا مقدمہ کس مہارت اور دیانت کے ساتھ پیش کیا اس کی کسی حد تک تفصیل فرزند اقبال جسٹس (ر)جاوید اقبال کی مذکورہ کتاب میں پڑھی جا سکتی ہے۔

اسی ضمن میں ہم پاکستانی فوج کے لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک کا نام بھی شامل کر سکتے ہیں ۔ وہ 65ء کی جنگ میں 12ڈویژن کے جی او سی تھے اور اسی جنگ میں ان کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں ہلال امتیاز سے بھی نواز گیا ۔اس جنگ سے وابستہ ایک بڑے نام سیسل چوہدری بھی ہیں جو اس وقت گروپ کیپٹن تھے ۔ انہیں بھی ستارہ جرأت اور تمغۂ جرأت سے نوازا گیا ۔

یہ ہم سب جانتے ہیں کہ 65ء کی جنگ میں ہمیں ان عہدوں کے حوالے سے کس حد تک حساس ہونے کی ضرورت تھی ۔ اوپر جتنے بھی نام گنوائے گئے موجودہ خود ساختہ معیارات اور عدم تحفظ کے بڑھے ہوئے احساس کے تحت ان سب پر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ مسیحی ،قادیانی یا ہندو ہیں اور یہ لوگ ان حساس اور اہم انتظامی نوعیت کے عہدوں پر فائز ہونے کے قابل نہیں تھے لیکن تاریخ کو ریورس گئیر لگانا اب ممکن نہیں ۔

یہ تو خیر کچھ مثالیں ہیں لیکن ہمارے ہاں تنگ نظری کا اکثر اس شدت کے ساتھ اظہار کیا جاتا ہے کہ سب ضابطے اور اصول یکسر پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں ۔ پرویز مشرف پر کئی اعتبار سے بالکل جائزاور بجا تنقید کی جاتی ہے لیکن ماضی میں‌ ان کے بارے میں بھی قادیانی ہونے کا شور بلند ہوا تھا ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت جنرل حمید گُل نے وضاحت کی کہ مشرف ان کے تحت کام کر چکے ہیں اور وہ انہیں جانتے ہیں کہ وہ قادیانی نہیں ہیں ،اس طرح غبار کسی حد تک چھٹ گیا تھا۔پھر یہ الزام مشرف کی بیوی صہبا مشرف پر لگایا گیا۔مشرف کے ایک قریبی مشیر طارق عزیز کے بارے میں بھی اسی قسم کی افواہیں سنی گئیں تھیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک بہت سے لوگ مشرف کے مذہبی عقیدے کے بارے میں اپنے دیرینہ موقف پرقائم ہیں ۔

لاہورمیں گڑھی شاہو کے مقام پر جب احمدیوں کی عبادت گاہ پر دہشت گرد حملہ ہوا تومیاں نواز شریف جاں بحق ہونے والوں کے سوگواران کے پاس تعزیت کے لیے گئے اور انہیں دلاسا دیا ۔ اس وقت بہت سے لوگوں نے ان کے کچھ جملوں کو بنیاد بنا کر فتوے لگانا شروع کر دیے حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کا خاندان کس حد تک مذہبی روایت سے وابستہ ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ نئے آرمی چیف کے لیے کس شخصیت کا انتخاب کیا جاتا ہے البتہ انصاف کی بات یہی ہے کہ اس معاملے میں ہمیں جسٹس (ر) جاوید اقبال کے اس جملے کو پیش نظر رکھ کر رائے کا اظہار کرنا چاہئے :’’ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ جو ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا ، وہ مسلمان نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی منصب پر ’’غیر مسلم‘‘ کا استحقاق ہوتو اسے محروم رکھنا کہاں کا اسلام ہے؟‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے