کیا ایسا کبھی ممکن ہے؟

پتا نہیں کیوں۔۔ میں اتنا حساس کیوں ہو گیا ہوں؟ کیا اتنی بڑی بات تھی جس پر دل میں طوفاں برپا ہو گیا ہے؟کوئی انوکھا واقعہ تو نہیں تھا، ایسا تو ہر گاؤں میں، شاید ہر محلہ میں ہوتا ہو گا۔ کیا بڑی بات تھی۔ ہماری بہت ہی سینئر خاتون صحافی فوزیہ شاہد صاحبہ نے اپنی فیس بک وال پر ایک وڈیو شیئر کی ۔ اس وڈیو میں ایک شوہر اپنی بیوی کے بال بطور سزا کاٹ رہا ہے، ان کی بچی معاملہ کی نزاکت سے بے خبر اپنے باپ سے بات کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے۔

شاید کسی کے لیے یہ بڑی بات نہ ہو لیکن میں کیا کروں جب سے یہ منظر دیکھا ہے دل پریشان ہے، ہیجانی کیفیت سی ہے۔ کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں میں ایسی کوئی چیز دیکھتا ہی کیوں ہوں؟
وہ خاتون جس طرح خاموشی سے اپنے شوہر کی درندگی کو برداشت کر رہی تھی اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بے بس ہے، یا تو اس کے ماں باپ نے اسے یہ سمجھا کر بھیجا ہو کہ شوہر کے گھر سے تمہارا جنازہ ہی اٹھنا چاہئے ۔ یا پھر دنیا میں ماں باپ ہی نہیں رہے ، کوئی بھی نہیں شاید بھائی بھی نہیں رہے۔ اگر کوئی ہوتا تو شاید وہ اپنے گیسوئے دراز اس طرح خاموشی سے نہ کٹواتی جاتی۔

کم از کم احتجاج کے طور پر رو ہی دیتی، کسی کو پکارتی لیکن کس کو پکارتی؟ شاید دل میں اپنے خدا کو پکارتی ہو۔۔ مجازی خدا جب ظلم ڈھاتا ہو تو پھر حقیقی خدا کو آواز تو لگائی ہو گی۔ پھر کیوں قیامت نہیں آ گئی؟ کیوں اس ظالم شوہر کے سر پہ چھت نہیں گر گئی؟ کیوں اس باریش نوجوان شوہر کے دل میں کوئی خوف نہیں جاگا؟

اس خاتون کی خاموشی اور پتھرائی ہوئی آنکھیں یہ بتاتی تھیں کہ ان آنکھوں نے اب برسنا چھوڑ دیا ہے۔زبان کھولنے پر بھی پابندی ہو گی ورنہ وہ اسے کوئی واسطہ ہی دیتی، خدا کا نہ سہی تو اس لڑکے کے ماں باپ کا واسطہ ہی دیتی مگرکیسے؟ زبان بھی تو عند الطلب حق مہر کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہو گی۔

ایک معصوم سی بچی گود میں بیٹھی ہوئی یہ منظر دیکھتی تھی، ماں بار بار اس کا چہرہ آگے کی جانب کرتی تاکہ وہ یہ منظر نہ دیکھ سکے۔میں انتہائی دل گرفتہ ہو کر بیٹھا یہ وڈیو دیکھ رہا تھا کہ ہمارے ایک اور دوست نے فیس بک میسنجر پر ایک اور وڈیو بھیجی۔ میں نے سوچا شاید کوئی ہلکی پھلکی مزاحیہ وڈیو ہو گی۔

خام خیالی تھی میری۔ اس وڈیو میں جنوبی پنجاب کے ایک وڈیرے صاحب ایک کمی کمین کو اپنے قدموں میں بٹھا کر نہایت شائستہ زبان میں گالیاں دیتے ہوئے پوچھ رہے تھے میرے بیٹے کو گالی کیوں دی۔ وہ مزارع بار بار قرآن مجید کی قسم کھاتا اور بولتا جاتا کہ اس نے گالی نہیں دی نہ ہی روکا۔ اس دوران ایک شخص مسلسل وڈیو بنائے جاتا تھاجبکہ وہاں کھڑے وڈیرے کے بچے اور ملازم حسب توفیق اس مزارع کے ننگے بدن پر تھپڑ، مکے اور ٹھڈے برساتے رہے۔

اس غریب کو پیروں میں سے اٹھنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ وہ بس بار بار کہتا تھا میں نے نہیں کیا۔ مجھے گالی دینا آتا بھی نہیں۔میں نے تو چھوٹے صاحب کو روکا بھی نہیں۔

لیکن کوئی کیوں اس کمی کمین کی بات پر توجہ دیتا؟ وہ چھوٹا سا بچہ سچ بول رہا تھا جو اس کمی کو تھپڑ مار رہا تھا یا زمین پر بیٹھ کر مار کھانے والا وہ مزارع سچ بول رہا تھا جو قرآن پاک کی قسم بھی کھاتا تھا؟

دوسری وڈیو نے رہی سہی کسر بھی نکال دی، ہم کتنے بے حس اور ظالم ہوچکے ہیں۔ کسی مظلوم کی چیخیں بھی ہمارے دل پہ اثر نہیں کرتیں، ہم تو بس ظلم کرنا جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے رحم کی دعا مانگتے ہیں اور اس کی مخلوق پر ظلم ڈھاتے ہیں۔

کوئی کچھ بھی کہے میں تو کہوں گا بارشیں نہیں ہوتیں تو اس کی وجہ بھی ہمارے گناہ ہیں۔ ہم سب کے اندر کہیں نہ کہیں ظالم بننے کی خواہش ضرور موجود ہے، بس یہ ظاہر اس وقت ہوتی ہے جب ہمارے ہاتھ میں اختیار آتا ہے۔ کتنا مناسب اور زبردست قول ہے کہ اختیار ملنے پر لوگ بے نقاب ہو جاتے ہیں۔

دیکھئے ناں، ہمارے ملک کا فخر ہوتے ہیں وہ لوگ جو ہمارے ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کرتے ہیں ۔ حسن سدپارہ پاکستان کا ایک ایسا ہی سپوت تھا جس نے دنیائے کوہ پیمائی میں پاکستان کا نام دنیا بھر میں متعارف کروایا۔ وہ بیمار پڑا تو سب پر یہ راز کھلا کہ وہ تو مدد کا مستحق ہے، ہمارے شہنشاہ معظم کی صاحبزادی کو اس پر رحم آیا تو غالباً ساٹھ ہزار روپے کا چیک جاری ہوا لیکن اتنی خطیر رقم کا چیک جاری کرنے کے باوجود حکومت وقت حسن سدپارہ کی زندگی نہ بچا پائی۔

وہ زندہ تھا تو کوئی اسے پوچھ نہیں رہا تھا لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوا ، صدر، وزیر اعظم، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ، وزراء اور مشیروں کو یاد آ گیا کہ حسن سد پارہ ہماری کمیونٹی کا سرمایہ تھے، ملک ایک بڑی ہستی سے محروم ہو گیا ہے، ان کی موت سے پیدا ہونے والا خلا مدتوں نہیں بھر سکے گا۔۔ غرض یہ کہ ہر وزیر، مشیر اور ان کے بھی لیڈران کرام، سب تعزیت میں پیش پیش ہیں لیکن کسی نے بھی یہ زحمت نہیں کی کہ اس بات کا خیال کر لیں کہ جسے زندگی میں ہی جیتے جی مار دیا تھا، اسے ابدی نیند سونے کے بعد آپ کے تعزیتی پیغامات سے زیادہ اس بات کی ضرورت تھی کہ اسے کم از کم تدفین تو اس کے شایان شان مل جاتی، اسے اس دنیا سے رخصت کرنے کا سفر اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے تو آسان کر دیا جاتا۔

میں بے حس ہوں شاید ۔۔ حسن سد پارہ کے مرنے پر تو نہیں رویا لیکن یہ دیکھ کر میں رو دیا کہ حسن سد پارہ کا جسد خاکی ایک مسافر وین کی چھت پر باندھ کر لے جایا جا رہا تھا، اس ملک میں جہاں حکمرانوں اور ان کے بچوں کے کھانے سرکاری پٹرول کے ساتھ سرکاری ہیلی کاپٹر پر مری لے جائے جاتے ہوں وہاں قومی ہیرو کی لاش کو پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعہ بھیجا جا رہا تھا۔ جو لوگ ارب پتی، کھرب پتی ہونے کے باوجود بیرون ملک علاج کے پیسے بھی سرکاری خزانے سے وصول کرتے ہیں ، سیر کرنے بھی ہیلی کاپٹر پر جاتے ہیں، برطانیہ میں علاج کروا کے واپس آئیں تو پی آئی اے کا سرکاری جہاز اسلام آباد سے بغیر کسی سواری کے لندن پہنچتا ہے وہاں سے ارب پتی غریبوں کو واپس اٹھا کر لاتا ہے ، وہ حکمران کوہ پیمائی کی دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے حسن سدپارہ کا جسد خاکی ہوائی جہاز یا ہیلی کاپٹر کے ذریعہ نہیں بھجوا سکتے۔

خیر ۔۔ غریب انسان کو کیوں ہیلی کاپٹر جیسی عیاشی کرائی جائے، یہ سہولیات تو صرف ایلیٹ کلاس کے لوگوں کے لیے ہی ہو سکتی ہیں۔ غریب تو صرف اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ انہیں امیروں کے بچے ٹھڈے ماریں، یہ پوچھیں کہ گھور کر کیوں دیکھا، گالیاں دینے کا الزام لگا کر اس کی ٹھکائی کی جائے۔ ان کی کیا مجال کہ یہ کوئی عیاشی کر سکیں ، کیا ہوا جو انہوں نے ملک کا نام روشن کیا، ایسا کرنے کو ہم نے تو نہیں کہا تھا ناں۔ تو کیا ملک کا نام روشن کر کے اس نے ہم پر احسان کیا تھا؟

کیوں یہ سب کچھ اپنے سامنے ہوتا دیکھ کر ہم کچھ نہیں کر پاتے، کیوں ہم ایسے حکمران منتخب کرتے ہیں جو ملک یا عوام سے زیادہ اپنا خیال رکھتے ہیں، جواپنے ساتھ وفاداری کرنے والوں کو سرکاری عہدے اندھے کی ریوڑیوں کی طرح بانٹتے ہیں ، کیا ہم کبھی پوچھ سکیں گے کہ جناب چھوٹی چھوٹی سرکاری نوکریوں کے لیے تو این ٹی ایس کا ٹیسٹ ضروری ہے مگر صدر مملکت ، گورنر، وزیر اعلیٰ یا وزیر مشیر بننے کے لیے کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ؟ شاید ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم ایک قوم نہ بن جائیں۔ کیا ایسا کبھی ممکن ہو پائے گا؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے