ایل او سی کی صورتحال پر وزیرِاعظم نواز شریف کو مودی سے بات کرنی چاہیے

پاکستان کی قومی اسمبلی میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری جھڑپوں کے تناظر میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی پر غور کرنا چاہیے اور ایل او سی پر صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے وزیرِاعظم نواز شریف کو اپنے انڈین ہم منصب نریندر مودی سے بات کرنی چاہیے۔

جمعے کو یہ تجویز متحدہ قومی موومنٹ کے رکنِ قومی اسمبلی شیخ صلاح الدین نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کنٹرول لائن کی صورتحال سے متعلق تحریک پر بحث کے دوران پیش کی۔

’انڈیا کشمیر، لائن آف کنٹرول کے بارے میں حقائق مسخ کر رہا ہے‘
’کھیتوں میں بارود بویا جائے تو پھول نہیں کھلتے‘

اِس سے قبل پالیسی بیان دیتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اُمورِ خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ انڈیا مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جارحیت کر رہا ہے اور جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘خود کو مہذب ملک کہنے والا ہندوستان کشمیر میں ظلم و جبر کر رہا ہے۔’
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ پُر امن ہمسائیگی رکھنا چاہتا ہے اور انڈیا کے ساتھ بھی تمام مسائل پر بات چیت ہو سکتی ہے اگرچہ کشمیر کا معاملہ اِس میں شامل ہو۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں یہ پالیسی بیان ایسے وقت میں دیا ہے جب لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری پر پاکستان اور انڈیا کی افواج کے درمیان جھڑپیں تیز ہو گئی ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر ایل او سی اور سیز فائر کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں جمعے کو کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق تحریک پر بحث ہوئی جو قانون و انصاف کے وزیر زاہد حامد نے پیش کی۔

بحث کا آغاز کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام ف کی رکن ِ قومی اسمبلی نعیمہ کشور خان نے کہا کہ انڈیا نے کنٹرول لائن پر غیراعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے جس کی پوری دنیا کو مذمت کرنی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بغیر جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔
غوث بخش مہر کا کہنا تھا کہ انڈیا کشمیریوں کی جدوجہد کو طاقت سے دبانے میں ناکام رہا اور اس نے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ شروع کر دی ہے۔

جمعے کے روز قومی اسمبلی کا اجلاس پونے تین گھنٹے جاری رہا جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے کی۔
اِس اجلاس میں قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کے علاوہ وزیرِاعظم محمد نواز شریف اور قائد ِحزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی شرکت نہیں کی جبکہ اجلاس کے آغاز پر قومی اسمبلی کے صرف 13 فیصد ممبران موجود تھے جن کی تعداد اختتام تک تقریباًسات فیصد رہ گئی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے