مرد دوسری شادی کیوں کرتےہیں

وہ بہت ہی پکی سہیلی تھی ،شاید ساڑھے سات سال بعد ملاقات ہو رہی تھی اور مریم اپنی سہیلی کے آنے کا سن کر جھوم جھوم جا رہی تھی۔ اسے خیال آیا کہ جب تک نوشابہ پہنچے گی اسکے ننھے منے شہزادے کے لئے کوئی خوبصورت تحفہ ہی خرید لے۔ دفتری مصروفیات اور گھر سے فرصت بہت کم ملتی تھی کہ دوستوں سے زیادہ گپ شپ لگا سکتی لیکن نوشابہ سے کبھی کبھار بات ہو جایا کرتی تھی۔ حال چال پوچھ لیتی اور اس سے ملنے کا پلان بناتی رہتی لیکن وقت موقع نہیں دیتا تھا۔

دفتر سے نکلتے ہوئے ننھے شہزادے کے لئے خوبصورت سا تحفہ لیا اور گھر پہنچ گئی اور اور نوشابہ کے آنے تک تمام انتظامات مکمل تھے۔ دروازے کی گھنٹی بجی تو لپک کر دروازہ کھولا لیکن دروازے پر کھڑی نوشابہ کو دیکھ کر یقین نہیں آیا کہ یہ وہی ہے جو آج سے چند سال پہلے ایک ذندگی سے بھر پور لڑکی تھی۔ اسے گلے سے لگایا تو احساس ہوا کہ صرف چہرے سے رونق نہیں گئی ہوئی بلکہ جسم سے طاقت بھی جا چکی ہے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ اور لاغر جسم۔ لیکن فوری طور پر کچھ بھی پوچھنے کی ہمت نہ کر سکی۔ گال پر انگلیوں کے نشان کچھ کچھ کہانی واضح کر گئے کہ حالات ویسے نہیں ہیں جیسے وہ فون پر بتاتی تھی۔

نوشابہ۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟ بہت ہمت کر کے سوال کر ہی لیا ۔ ننھا شہزادہ ادھر ادھر بھاگ رہا تھا اور کبھی کبھی اپنی ماں کو حیران کن نظروں سے دیکھ لیتا ۔میرے لئے کوئی اچھی نوکری ڈھونڈ دو جس سے میرا اور بیٹے کا گزارہ ہو سکے۔ مریم ششدر رہ گئی۔

نوشابہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ نوکری کا بھی ہو جائے گا لیکن مسئلہ صرف نوکری نہیں ہے۔ اور پھر صرف آنسو اور پچھتاوے کی کہانی شروع ہوئی۔ مریم غلطی ہو گئی۔ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے کانٹوں بھرا راستہ چن لیا اور اب چھلنی پیروں کے ساتھ مذید سفر ممکن نہیں رہا۔ اسکی بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا کہ کیا مطلب۔ تو وہ نوشابہ جو ہمیشہ کہتی تھی کہ آج تک جو سوچا وہی ملا کہہ رہی تھی کہ اس راستے پر جس کے سہارے سے چلی تھی اسی نے ساتھ نہیں دیا ۔

اسےصرف مجھ سے قربانی چاہئیے۔ وہ چاہتا ہے کہ صرف میں اپنی ہر خوشی ، اپنا ہر حق، اہنا سب کچھ اسکی خوشی پر قربان کر دوں ، یہ بھی کر دیتی اگر وہاں سےعزت ملتی تو۔ اور ایک مرتبہ پھر اسکے انسو رواں ہو چکے تھے۔

شادی پر نوشابہ بہت خوش تھی محبت کی شادی پر ۔ اپنی آنکھوں میں دنیا کی باقی لڑکیوں کی طرح اسنے بھی بہت سے خواب دیکھے تھے ایک خوبصورت اور خوشگوار ذندگی کے۔ جس سے محبت کی تھی اسکی دوسری بیوی بننے پر دل سے خوش تھی۔ ۔ کیونکہ جس کا ہاتھ تھام کر چلی تھی اسنے اسے بہت حسین سپنے دکھائے تھے۔اور اب اسکی آنکھوں میں صرف ان خوابوں کی کرچیاں تھیں جو اسکی تکلیف کو دوگنا کر رہی تھیں۔

مریم کہہ رہی تھی کہ میرے پاس نوشابہ کو دینے کے لئے تسلی کے الفاظ بھی نہیں تھے اور میں صرف سوچے جا رہی تھی کہ شادی تو دونوں کا معاملہ ہوتا ہے تو پھر صرف عورت قربانی کیوں دے؟ جب فیصلہ دونوں نے کیا تو اسکی سزا صرف عورت کو کیوں ملتی ہے۔ سارے فرض نبھانے کا ٹھیکہ صرف عورت کو کیوں سونپ دیا جاتا ہے۔ نکاح سے پہلے کئے سارے وعدے نکاح کے بعد صرف خود ساختہ مجبوری کی بھینٹ کیوں چڑھا دئیے جاتے ہیں۔ دوسری عورت لانے کے لئے ہر وقت تیار رہنے والے مرد اسکی ذندگی اجیرن کیوں بنا دیتے ہیں۔ کاش انہیں احساس ہو سکے کہ جنھیں جھوٹے وعدے کر کے اپنے جال میں پھنساتے ہیں وہ بھی انسان ہوتی ہیں ۔ انکے احساسات اور جذبات ہوتے ہیں ۔ لیکن بات بھی سچ ہے کہ کسی بھی چیز کی قدر تب تک ہوتی ہے جب تک وہ آپکی دسترس میں نہ ہو اور حاصل کرنے بعد اسکی وقعت ختم ہو جاتی ہے۔ اور قابل سزا ٹھہرا دی جاتی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ معصوم بچےبھی اس زیادتی کا شکار ہو کر محرومیوں کی ذندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

احساسات اور محبت سے عاری اس معاشرے میں حیوانیت اپنے عروج کو چھونے لگی ہے۔جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی تشدد بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی انتہاوں کو چھو رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے