سندھ اسمبلی کاغیر اسلامی بل

آج كے اخبارات كے مطابق سندھ اسمبلى نے اقليتوں كے حقوق كے عنوان سے ايك بل منظور كيا ہے جس كى رُو سے كسى غير مسلم كے اٹھارہ سال كى عمر سے پہلے اسلام لانے پر پابندى عائد كردى گئى ہے ۔اور اسے قابل تعزير جرم قرار ديديا گيا ہے ۔ اسلام لانے پر پابندى كا يہ قانون شريعت اسلاميہ اور عدل وانصاف كے تمام تقاضوں كو پامال كرنے كے مترادف ہے ۔

يہ درست ہے كہ قرآن كريم كى رُو سےكسى كو زبردستى مسلمان بنانا ہرگز جائز نہيں ہے ، اور اس پر پابندى حق بجانب ہے ، ليكن دوسرى طرف برضا ورغبت اسلام لانے پر پابندى لگا كر كسى كو دوسرے مذہب پر باقى رہنے كے لئے مجبور كرنا بدترين زبر دستى ہے جس كا نہ شريعت ميں كوئى جواز ہے ، نہ عدل وانصاف كى رُو سے اسكى كوئى گنجائش ہے ۔

اسلام كى رُو سے اگر كوئى سمجھدار بچہ جو دين ومذہب كو سمجھتا ہو، اسلام لے آئے ، تو اسكے ساتھ مسلمانوں جيسا سلو ك كرنے كا حكم ہے ۔ نيز اسلامى شريعت كى رُو سے بچہ پندرہ سال كى عمر ميں ، بلكہ بعض اوقات اُس سے پہلے بھى بالغ ہوسكتا ہے ۔ ايسى صورت ميں جبكہ وہ بالغ ہوكر شرعى احكام كا مكلف ہوچكا ہے ، اسے اسلام قبول كرنے سے تين سال تك روكنا سراسر ظلم اور بدترين زبردستى ہے ۔

اس قسم كى زبر دستى كا قانون غالباً كسى سيكولر ملك ميں بھى موجود نہيں ہوگا ، چہ جائيكہ ايك اسلامى جمہوريہ ميں اسكو روا ركھا جائے۔ نيز اٹھارہ سال كے بعد اسلام قبول كرنے كے لئے اكيس دن كى مہلت دينا بھى نا قابل فہم ہے ۔ كيا اسكا يہ مطلب نہيں ہے كہ اس مدت ميں اسكے اہل خاندان اسے دھمكاكر اسلام لانے سے روكنے ميں كامياب ہو سكيں ؟

پھر سوال يہ ہے كہ اگر دو مياں بيوى قانون كے مطابق اسلام لے آئيں ، تو كيا اس قانون كا يہ مطلب نہيں ہوگا كہ انكے بچے اٹھارہ سال كى عمر تك غير مسلم ہى تصور كئے جائينگے ، كيونكہ انہيں اس عمر سے پہلے اسلام لانے كى اجازت نہيں ہے ؟ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ يہ قانون اسكے تمام مضمرات پر غور كئے بغير محض غير مسلموں كو خوش كرنے كے لئے نافذ كيا گيا ہے ۔

ميں عام مسلمانوں ، دينى اور سياسى جماعتوں سے اپيل كرتا ہوں كہ اس شرمناك قانون كو منسوخ كروانے كے لئے اپنا دينى فريضہ ادا كريں ۔ وفاقى شريعت عدالت سے بھى مطالبہ ہے كہ اُسے ازخود نوٹس لے كر كسى قانون كا قرآن وسنت كى روشنى ميں جائزہ لينے كا جو اختيار حاصل ہے ، اس قانون كے بارے ميں اپنے اس اختيار كو استعمال كركے اسے غير مؤثر قرار دے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے