جہا نگیر بدر ، وفا کا پیکر

سیاست جتنی زیادہ ہوئی اتنی ہی بے توقیر بھی ، خرابی سیاست میں نہیں ، خراب لوگوں کا سیاست میں کو د آنا باعث زوال ٹھہرا، سیاسی قابلیت اور عملی جدوجہد کا پیمانہ پیسے اور خوشامد سے بدل دیا گیا ، ایسے دور میں بھی اگر کوئی متوسط طبقے کا سیاسی کارکن پورے قدر کے ساتھ کھڑا رہے تو وہ باعث تقلید بھی ہے اور بڑھتے اندھیروں میں صبح نو کی امید بھی ۔ بلاشبہ جہانگیر بدر نظریات پر ڈٹے رہنے والے سیاسی کارکنوں کے ماتھے کا جھومر تھے۔

تیرہ نومبر دو ہزار سولہ کو جہانگیر بدر بہاتر سال کی عمر میں میدان سیاست اور ہنگام دنیا سے منہ موڑ گئے، قدرت نے انہیں زمانہ طالب علمی میں ہی ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے لیے چنا اور مرتے دم تک یہ جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہی رہا، انیس سو اڑسٹھ میں ہیلے کالج لاہور میں طلباء یونین کے صدر بنے اور آ مر ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لینے پر گرفتار ہوئے، یہاں سے ان کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا اور سیاسی جدوجہد مقصد حیات بن گئی ، ہر قدم اسی راہگزر پراٹھنے لگا ۔ جہانگیر بدر 1970 میں پنجاب یونیورسٹی پہنچے تو باہیں بازوں کے اتحاد کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں کود پڑے، یونیورسٹی ا نتظامیہ نے الیکشن میں زبردست دھاندلی کی اور جہانگیر بدر کو ڈکٹیٹر جنرل یحیٰی خان مارشل لاء ریگولیشنز کے تحت ایک با رپھر جیل میں ڈال دیا۔ یوں سیاست کے پرخار راستے پر چلتے ہوئے یہ نوجوان صرف چھبیس سال کی عمر تک کئی بار جیل کی ہوا کھا چکا تھا۔

جہانگیر بدر کی شخصیت میں ایک جیالا پیدائشی طور پر موجود تھا جس نے انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت اور انداز سیاست کے سحر میں مبتلا کر دیا اور جہانگیر بدر نے پیپلزپارٹی کی تشکیل کے کچھ ہی سالوں بعد ترنگا جھنڈا تھام لیا، اس طالب علم رہنما نے لاہور میں پارٹی کو بنیادی سطح پر منظم کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور گلی گلی پہنچا لیکن طاقت کے مراکز میں جمہوریت اور جمہور دونوں کا گلا گھونٹنے کا فیصلہ ہو چکا تھا،ایک اور ڈکٹیر کا اقتدار کے ایوانوں میں آنے کے لیے دل مچل رہا تھا ، 5 جولائی 1977کو آرمی چیف جنرل ضیا ء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کیا تو جہانگیر بدر کو ایک بار پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔

ہزار موسم آئے، جبر کے پہرے رہے ، کوڑے جیالوں کا مقدر، جیل کی اذ یتیں رواج بن گئیں ، بھٹو اور پیپلز پار ٹی کا نام لینے والا غدار وطن ٹھہرا،لیکن جہانگیر بدر ہر امتحان میں سرخروہوئے۔ قائد عوام کو تختہ دار پر لٹکایاگیاتو جہانگیر بدر ڈکیٹیر جنرل ضیاء الحق کے ظلم کے خلاف پنجاب کی تواناآواز بن گیا۔ شہید بھٹو کے ا س جانثار نے کوڑے کھائے ، جیلیں کا ٹیں لیکن کسی مجلس شوری کی جانب دیکھا نہ کبھی شہید بھٹو کی بیٹی کا ساتھ چھوڑنے کا سوچا۔ آمرانہ دور کا خاتمہ ہوا اور 1988 کے انتخابات میں جہانگیر بدر رکن قانون ساز اسمبلی اور پھر وزیر بن گئے ، جہانگیر بدرنے پیپلز پارٹی کے ساتھ وفا ایسے نبھائی کہ اہل سیاست کے لیے مثال بن گئے۔

واقفان حال کہتے ہیں بی بی شہید کی زبان پر جہانگیر بدر نام سب سے زیادہ ہوتا، وہ انہیں بدر کہہ کر پکارتیں اور یہ جیالا ہر آواز پر لبیک کہتا، جہانگیر بدر پیپلز پارٹی بن گئے تو پیپلزپارٹی نے بھی ان کی عزت و احترام میں کوئی کمی نہ آنے دی ۔وہ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل اور دو بار سینیٹر بھی رہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی جہانگیر بد ر ان خوش قسمت کارکنوں میں شامل رہے جنھیں ان کی نظریاتی وابستگی اور پیپلز پارٹی سے وفاداری کا صلہ کسی حد تک ضرور ملا اور وہ کئی دوسروں کی طرح تختہ مشق بننے سے بہر حال بچ گئے، جہانگیر بدر طاقت کے مراکز کا حصہ رہے لیکن اس دور میں صوبہ پنجاب پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے ریت کی طرح سرک گیا اور خبر تب ہوئی جب مٹھی خالی ہو چکی تھی۔ قصور اس میں جہانگیر بدر کا نہیں ان فیصلہ سازوں کا تھا جنھوں نے جیالوں کی جگہ پنجاب کی ڈور ایلیکٹ ایبلزکے ہاتھ میں تھما دی ۔

جہانگیر بدر کی سیاسی بصیرت کا اعتراف اس وقت بھی کیا گیا جب انہیں نوجوان چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا اتالیق مقرر کیا گیا۔ سیاست کے پر خار راستے پر قدم کیسے پھونک پھونک کر رکھنا ہے ، جذبات کے منہ زور گھوڑے کو لگام کیسے دینی ہے ، ہر حال میں جمہوریت کی آبیاری کیسے کرنی ہے، بلاول بھٹو کو یہ سب رموز سیکھانے کا کام بھی اس جیالے کے ہی حصے میں آیا جس نے بھٹو اور بے نظیر دونوں کے کندھے سے کندھا ملا کر سیاست کی ۔

جہانگیر بدر اپنے کردار کی عظمت سے پیپلز پارٹی سمیت ہر سیاسی جماعت کے کارکن کے لیے مشعل راہ ہیں، پیپلزپارٹی کو ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تادیر یاد رکھنا ہوگا۔پارٹی کا ٹریک ریکارڈ اس حوالے سے خاصاکمزور ہی نہیں باعث شرمندگی بھی ہے۔پہلے فوزیہ وہاب اور پھر مخدوم امین فہیم کو جس طرح سے بھلا دیا گیا اس کے بعد یہ امیدکم ہی ہے کہ جہانگیر بدر کی وفا کو بھی یہاں کوئی خراج مل سکے۔ دعا ہے کہ جہانگیر بدر کی دنیا کی طرح آخرت بھی خوبصورت ،درجات بلند اور کروٹ کروٹ راحتیں نصیب ہوں۔۔امین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے