معاشرے کی گمراہ کن تقسیم

صحافت ہو یا سوشل میڈیا ، دوستوں کے ساتھ بیٹھک ہو یا کسی بھی جگہ پر بحث و مباحثہ ، ہم لوگ خود ساختہ طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں ، کسی شخص پر کوئی بھی لیبل لگانا بہت ہی معمول کی بات ہے اور سب سے آسان بات سمجھی جاتی ہے یہ خطرناک تقسیم نے ہمیں ایک آزاد اور غیر جانبدار تجزیہ کرنے بات کرنے ، لکھنے اور سنانے میں بہت ہی زیادہ محدود کر دیا ہے

آرمی کے حق میں بات کرنا آپ کو اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کا ایجنٹ بنا دیتا ہے جمہوریت کے حق میں بات کرنا آپ کو ملک دشمن آرمی دشمن بنا دیتا ہے بھارت کے خلاف بات کرنا ثواب جبکہ مذاکرات اور جنگ کی بجائے امن کا پیغام دینا آپ کو غدار وطن بنا سکتا ہے ، دو ہی انتہاپسندانہ گروپ بن چکے ہیں یا ایک گروپ یا اس کا انتہائی مخالف گروپ

وزیر اعظم نواز شریف کے حق میں بات کرنا ، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور تمام اختیارات کا آزادی سے استعمال کرنا، حکومت کے اختیارات کا تحفظ کرنا ، یہ تمام اقدامات آپ کو آرمی مخالف بنا دیتے ہیں ، آرمی کی قربانیوں شہدا کی مثالیں دینا ، ملٹری آپریشن اور بارڈر پر آرمی کی بہادری کی بات کرنا آپ کو لانس نائیک یا حوالدار بنا دیتا ہے ، نیوز گیٹ سکینڈل میں بات کی جائے کہ مریم نواز اور پرویز رشید نے سرل کو خبر دی تو آپ کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایک حقیقت ہے اگر اخبار میں آ ہی گئی ہے تو اس کو نظر انداز کر دیا جائے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تو آپ را کے ایجنٹ یا نواز شریف سے لفافے لینے والے بن جاتے ہیں

عمران خان کو ایک موقع دینے کا مطلب آپ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں ، نواز شریف کی کرپشن اور پانامہ لیکس کی بات کریں وزیر اعظم کے استعفٰی کی بات کریں تو آپ جمہوریت دشمن ، پارلیمنٹ دشمن ، پاک چین تعلقات ، گوادر سی پیک کے دشمن قرار دیئے جاتے ہیں ، اور اگر یہ کہا جائے کہ سپریم کورٹ میں کیس کا کوئی فائدہ نہیں آئندہ الیکشن میں پتہ چل جائے گا کون کرپٹ ہے کون صحیح ، تو ہمیں عرفان صدیقی اور عطا الحق قاسمی بنا دیا جاتا ہے ،

یہ خطرناک تقسیم صرف حکومت ، فوج ، جمہوریت ، سیاسی جماعتوں تک ہی نہیں ہے ہر معاملے پر ہر طرح کےحالات میں ہر شعبے میں کر دی گئی ہے
اگر فیس بک ، ٹویٹر انسٹاگرام پر ہم کتے بلیوں کے ساتھ تصاویر لگاتے ہیں تو یہ ہمارے لبرل ہونے کی تصدیق اور مہر ہے اگر ہم شراب پینے کو اچھاسمجھتے ہیں اور اس کا چرچا کرتے ہیں تو ہم لبرل اور ہائی سوسائٹی کے نمائندے ہیں ، دوسری طرف تھوڑی سی داڑھی سنت کے مطابق کیا بڑھا لی نماز پڑھنے مسجد چلے گئے تو ہم شدت پسند انتہا پسند بلکہ ہمارے اندر خودکش حملہ آور بٹھا دیا جاتا ہے ،

جنگ کے خلاف بات کریں تو ہم اے آر وائی گروپ کے ہیں یا ہم آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں ، جنگ اور حامد میر کے حق میں حامد میر کی صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کریں تو ہم را کے ایجنٹ اور ملک دشمن ہیں ، عاصمہ جہانگیر سے کوہسار مارکیٹ میں بیٹھ کر کافی پی لیں تو ہم بھارت کی پیرول پر ہیں ، کسی آرمی کے ریٹائرڈ افسر کے ساتھ چائے خانہ بیٹھ جائیں تو ہم آرمی کے ایجنٹ بن گئے

کسی کے حق میں خبر دے دی تو ہم لفافے لینے والے ، کسی کے خلاف خبر دے دی تو ہم بلیک میلر ہو گئے ، شلوار قمیض کے پانچے اوپر کر لیے تو ہم مذہبی انتہا پسند اور محرم میں کالے کپڑے پہن لیے تو شیعہ بن گئے

یا علی مدد کا نعرہ لگا دیں تو دائرہ اسلام میں نہیں رہے ، یہ خود ساختہ طور پر ہمارے طرز زندگی اور ہمارے روز مرہ کے معاملات میں دو گروپ اس قدر سوار ہو گئے ہیں کہ کوئی تیسرا راستہ نہین کوئی درمیانی زندگی نہیں ،

دو چار شعر اپ لوڈ کر دیں تو اس کا مطلب ہے آپ عاشق ہیں کوئی بے وفائی کر گیا ہے ، اپنے باس کے ساتھ اچھے طریقے سے بات کر لیں تو آپ چاپلوس قرار دے دیئے جاتےہیں ، یہ وہ تمام معاملات ہیں جن میں ہمیں سوچے سمجھے بغیر ہم پر لیبل لگ جاتا ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان صحافیوں کو تجزیہ نگاروں کو ہو رہا ہے

ان حالات میں کوئی بتائے کہ کیسے میں غیر جانبدار اور آزاد تجزیہ کر سکتا ہوں کالم لکھ سکتا ہوں خبر دے سکتا ہوں ، جب کہ مجھے پتہ ہے کہ کسی بھی سائیڈ کے اچھے کام کو سراہوں گا تو اس کا ایجنٹ بن جائوں گا تنقید کروں گا تو اس کے مخالف کا ایجنٹ بن جائوں گا ، ان حالات میں ہمیشہ میرٹ سے ہٹ کر بیلنس کیا جاتا ہے جس سے رائے اور تجزیہ کی سب خوبصورتی ختم ہو گئی ہے ہم جانتے ہوئے بھی کہ یہ درست ہے اسے کہیں نہ کہیں غلط قرار دے رہے ہوتے ہیں اور جو غلط ہوتا ہے اس میں سے درست پہلو نکال رہے ہوتے ہیں یہ ہے ہمارے معاشرے کی تقسیم جو ہر معاملے میں ہر شعبے میں پیوست ہوتی جا رہی ہے اور آزادی اظہار کو متاثر کرتی جا رہی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے