پیارا میڈیا اور آرمی چیف

بھلے باقی دنیا کے میڈیا پر فیدل کاسترو چھایا ہوا ہو۔ پر ساہنوں کی؟
پاکستان کے دیسی میڈیا کا آخری وقت تک بس نہیں چلا کہ خود ہی نئے آرمی چیف کا تقرر کر دے اور اگر ایسا واقعی ممکن ہوتا تو آج چار جرنیل آرمی چیف ہوتے۔
وزیرِ اعظم نے اس بار بھی اتنی ہی احتیاط برتی جیسے جنرل قمر جاوید باجوہ کا نہیں ضیا الدین بٹ کا تقرر کر رہے ہوں۔ آخر وقت تک سادے پانی سے دہی جمانے کی حکمتِ عملی جاری رہی۔
جانے کب ترکمانستان سے واپس آئے، کب ذاتی طور پر فائل لے کر صدر ممنون کے پاس گئے اور پھر کوئی رسمی پریس ریلیز جاری کرنے سے پہلے پہلے خبر لیک ہو گئی۔ تاکہ بریکنگ نیوز کے عادی میڈیا کی کچھ تو تشفی ہو جائے۔

میڈیا کے پاس ککھ ایکسکلوسیو نہ تھا۔ چنانچہ اس طرح کے تبصروں پے گزارا ہو رہا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ پروفیشنل سولجر ہیں۔ گویا ان سے پہلے کے سپاہ سالار واپڈا سے ادھار میں مانگے گئے تھے؟
جنرل باجوہ کو کمان اور ایڈمنسٹریشن کا وسیع تجربہ ہے۔ گویا کوئی ایسا سپاہ سالار بھی تھا جسے فوج کی کمان اور ایڈمنسٹریشن کے بجائے اریگیشن کا تجربہ تھا؟
وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ یعنی کیا پچھلوں کے ایمان کمزور تھے؟
جنرل باجوہ کا تقرر میرٹ پر ہوا ہے۔ تو کیا جنرل راحیل شریف دیہی علاقوں کے کوٹے پر اور جنرل کیانی پرچی پر آئے تھے؟
نئے آرمی چیف غیر سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔ اب تک جو 15 سپاہ سالار مقرر ہوئے ان میں سے کچھ تقرری سے پہلے کیا کسی سیاسی تنظیم کے کارڈ ہولڈر بھی رہ چکے تھے؟

جنرل باجوہ چیف کی دوڑ میں ڈارک ہارس تھے۔ اس بات کا اردو ترجمہ شاید یہ ہے کہ وہ میڈیا خواہشات کی فیورٹ امیدواری فہرست سے باہر تھے یا جس اینکر و تجزیہ کار کی پیش گویانہ امیدوں پر ان کی تقرری سے پانی پھر گیا اس کے لیے ڈارک ہارس ہو گئے۔

جب میڈیا کو اندازہ ہو گیا کہ جنرل راحیل شریف کے عہدے کی مدت میں توسیع نہیں ہو رہی، جب یہ افواہ بھی دم توڑ گئی کہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت تین برس سے بڑھا کر چار برس کی جا رہی ہے تاکہ راحیل شریف ایک سال اور رہ سکیں، جب اس اندازے نے بھی کھڑکی سے کود کے خود کشی کر لی کہ جنرل صاحب کو ان کی بے پناہ قومی مقبولیت اور شاندار خدمات کے عوض فیلڈ مارشل بنایا جا رہا ہے اور جب یہ امید بھی نوزائیدگی میں مر گئی کہ سعودی عرب نے جنرل شریف کو 34 رکنی مسلمان فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کی پیش کش کی ہے اور جب بعض اینکروں نے ٹی وی سکرین سے کود کر جنرل صاحب کے پیر پکڑ کے ’رک جا او جانے والے رک جا‘ گایا اور پھر بھی کوئی چمتکار نہ ہو سکا تو میڈیا پر افسردگی سی چھا گئی مگر ایک آدھ دن کے لیے۔

اور پھر یہ ادھیڑ بن شروع ہو گئی کہ چاروں امیدواروں میں سینیئر کون ہے۔ حالانکہ چاروں کو ایک ساتھ ہی فوج میں کمیشن ملا اور دو چار دن آگے پیچھے جوائننگ رپورٹ کے سبب سینیارٹی کا کوئی فرق اگر پیدا ہوا بھی تو بال کی کھال کے برابر تھا پھر بھی اس نکتے پر روزانہ شام سات سے بارہ بجائے جاتے رہے کیونکہ روزنامہ نکالنا یا 24 گھنٹے کا نیوز چینل چلانا مذاق نہیں ہے۔

آپ کا کیا خیال ہے کہ اگلے تین برس کے لیے میڈیا کے تجزیے ختم ہو گئے؟

ارے نہیں صاحب! نئے آرمی چیف سے وزیرِ اعظم کی پہلی ملاقات کی تصویر سے ہی تشریحی دوڑ شروع ہو چکی ہے۔
دونوں کے درمیان حائل میز خالی کیوں تھی؟ کیا نئے سپاہ سالار کے آنے سے پہلے فائلیں دراز میں چھپا دی گئی تھیں؟ کم ازکم ایک خالی صفحہ ہی میز پر رکھ دیتے تاکہ یہ جتا سکتے کہ آج سے ہم دونوں ایک پیج پر ہیں۔
ملاقات کے دوران نواز شریف کا ایک ہاتھ اپنے گھٹنے پر کیوں تھا؟
جنرل باجوہ گود میں رکھی چھڑی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں بار بار گھما کر وزیرِ اعظم کو کیا ان کہا پیغام دینا چاہ رہے تھے؟ ملاقات میں کیا گفتگو ہوئی؟
تفصیلات میڈیا سے کیوں چھپائی جا رہی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔

امید فاضلی کے ایک مشہور شعر میں تحریف کو جی چاہ رہا ہے۔

چیف بنا کر سو مت جانا
میڈیا آخر میڈیا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے