نئے آرمی چیف پر ہارون الرشید سٹائل کالم

"افسوس انسان خسارے میں ہے. اس بڑھیا کی طرح جس نے اپنا سوت خود ہی ادھیڑ ڈالا. اس چڑچڑی زہر اگلتی وکیل بڑھیا کی طرح جس نے غیر ملکی آقاؤں کی شہ پر ہمیشہ قائم رہنے والے پاکستان پر تھوکا.

بیسوں تجزیہ نگار نئے آرمی چیف کی تقرری پر بھانت بھانت کے تبصرے کر رہے ہیں. اس عامی کو کب سے علم تھا کہ اجلی پیشانی والا قمر باجوہ ہی عالم اسلام کی بہترین فوج کا سپہ سالار بنے گا. مگر دریں حالیکہ لکھ کر نہ دیا. اس متلون مزاج کالم نگار کے پاس ڈھیروں کہانیاں ہیں کسی دن بیان کر دی جائیں گی. لیکن کچھ بھاڑے کے ٹٹو کیچڑ اچھالتے رہے کہ نیا سپہ سالار قادیانی ہے. آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے. اے کائناتوں کے پروردگار تیری مخلوق کی ایسی بوالعجمعی؟ ایسے اجلے آدمی پر بہتان. بہتیرا سوچا مگر جواب ندارد. عارف عصر کی بات یاد آئی. جب راحیل شریف نے کمان سنبھالی تو یہ گنوار فقیر کے در پر حاضر ہوا. وہ جس کے دروازے ہمیشہ ضرورت مندوں کے لئے وا رہتے ہیں. پوچھا صدام حسین سی مونچھیں رکھنے والا یہ جنرل کیا اس قوم کو سنبھالنے کی کوشش کرے گا؟ کیا 27 رمضان المبارک کی رات کو قائم ہونے والا یہ ملک کبھی رزداریوں، نوازشریفوں، موالانو، اسفند یار ولیوں، الطافوں سے نجات پا سکے گا؟. صوفی نے تسبیح کے رولتے دانوں سے سر اٹھایا اور گویا ہوئے. ” اس جنرل کی جبلت مارشل لاء والی نہیں. یہ دنیا کا پہلا جرنیل ہوگا جو مونچھیں رکھ کر بھی حکومت میں نہیں آئے گا”. عامی کا دل بجھ سا گیا.. اور اس قوم کا کتنا امتحان خدا کو مقصود ہے؟ . الحذر الحذر. لیکن خدا کہتا ہے جو بویا وہی کاٹو گے.

کیا نیا سپہ سالار، عالم اسلام کی کمان سنبھالنے کا اہل ہے؟ تین عشرے ہوتے ہیں حکمت یار کے ساتھ کابل سے ذرا پرے، دنبے کی بھنی چانپیں کھاتے ہوئے اچانک پوچھ بیٹھا. کہساروں کے سے حوصلے والے جنگجو حکمت یار بتاؤ کیسا لیڈر عالم اسلام کو چاہیے؟ وائٹ ہاوس میں ریگن کی دیسی مرغی کی ٹانگ اسکی پلیٹ سے نکال کر کھا جانے والے جری حکمت یار نے ٹھٹھرتے موسم میں ہنکارا بھرا، جو گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سو سکے. الامان الحفیظ. بر حق کہا. ضیاء ایسا فسوں خیز جسے انکل سام نے مروا دیا. کیانی جیسا مفکر سپہ سالار جس نے لیون پینیٹا کو مارون گولڈ کی ڈبی دینے سے انکار کیا. انکل سام جس سے مہینوں ناراض رہا. آخر ہیلری نے سابق سپہ سالار کی خدمات کا اعتراف کیا تو بات بنی.

قرائن بتاتے ہیں کہ نیا سپہ سالار اس قوم کو تاریخ کے بیچ چوراہے میں چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے. ٹھیک ہے فوجی حکمران مسلے کا حل نہیں. جمہوریت ہی میں بقا ہے مگر کپتان ایسے سادہ لوح کے ہوتے ہوئے شریف فیملی اور انکے خریدے ہوئے صحافیوں کی جمہوریت؟ تف ہے. کپتان جسے سیاسی حرکیات کا علم ہی نہیں. برقی پیغام بھیجا کہ میانوالی کی دیسی مرغی کی یخنی اور شیرو کو ساتھ لو، نئے سپہ سالار کو مبارکباد دینی ہے. کپتان کا آدھ گھنٹے بعد جواب موصول ہوا کہ کسرت کر رہا تھا. نیز یخنی شیرو پی گیا ہے. باجوہ کے لیے شاہ محمود سوہن حلوہ لے جائے گا. افسوس 20 کروڑ کی امید اور ایسی غیر سنجیدگی؟ پارٹی شاہ محمودوں، صداقت عباسیوں اور جہانگیر ترینوں پر چھوڑ دی. ہاں جہانگیر ترین ریاضت کیش ہے مگر سیاست؟

افسوس انسان خسارے میں ہے. اس بڑھیا کی طرح جس نے اپنا سوت خود ہی ادھیڑ ڈالا. اس چڑچڑی زہر اگلتی وکیل بڑھیا کی طرح جس نے غیر ملکی آقاؤں کی شہ پر ہمیشہ قائم رہنے والے پاکستان پر تھوکا. "

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے