شاہراہ کرگل سے شاہراہ نیلم تک

ایک ماہ قبل کی بات ہے جب بھارتی سر جیکل سڑ ائیک کے زخم ابھی تازہ تھے اور پاک بھارت فوجیں مورچہ زن ہو کر ایک دوسرے پر آگ برسارہی تھیں اور کشمیر کی فضاپر بارو دکی بوسے مسموم تھی . جنگلوں میں گو لہ باری سے لگنے والی آگ کی دھویں کی تہہ چھا چکی تھی ۔وادی نیلم میں دو روزہ قیام کے دوران دو طرفہ بھاری گو لہ باری کی آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیا ۔ جا ڑے کاموسم شروع ہو نے پر چرند پرند بھی دیس چھوڑ چکے تھے ۔ بارودکی بو اور دھو یں کی گھٹن نے انسانی بقاءبھی خطر ہ سے دوچار کر رکھی تھی ، سانس لیتے وقت ٹھنڈی اور پاکیزہ ہوا کی جگہ بارود اور دھواں گلہ کاٹ رہا تھا ۔

کشمیر میں دو روز قیام کے دوران ایک بات ہر مرد وزن سے سننے کو ملی وہ یہ کہ پاکستان آرمی نے بھارت کے زیر انتظام شاہراہ کارگل کو بند کر دیا ہے ۔ یہ افواہ پوری وادی نیلم کے ہر فرد تک قومی فر یضہ سمجھ کرپہنچائی گی تھی ۔ جب میں یہ بات سنتا تو اس افواہ کو پھیلانے والی کی عمر اور عہدے کا لحاظ کیے بغیر اچھی خاصی کلاس لے لیتا تھا ۔اگر پاکستان نے شاہراہ گارگل بند کر نے کامعر کہ سر ہی کر لیا ہے تو اس بات کا نقصان کس کو ہو گا۔ یقینا اس اقدام سے کارگل کی وادی میں بسنے والے انسان اور کشمیر ی ہی مشکلات سے دو چار ہو ں گے ۔

شاہراہ کارگل بند کر نے کی افواہ منظم منصوبہ بندی سے پھیلا ئی جا رہی تھی اور اس میں وہی قوتیں ملوث تھیں جو 1999ءمیں کا رگل جنگ کے بعد نواز شریف کواس کا ذمہ دار ٹھہر ا کر دور دراز دیہات کے لو گوں کو متنفر کر رہیں تھی ۔ اس وقت تا ثر یہ دیا جا رہا تھا کہ فوج کا رگل جنگ جیت چکی تھی نواز شریف نے امر یکہ جا کر جنگ بندی کر ادی ۔ اس افواہ سازی کے کچھ عرصہ بعد پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمالیا تھا ۔

شاہر اہ کارگل بند کر نے کی افواہ سن کر رنجیدہ ہو جا تا تھا کیونکہ ”پہلے ما حول ساز گار کیا جاتا ہے اور پھرنغمے کا آغاز کیا جاتا ہے “ اور ایسا ہی وادی نیلم میں بھی ماحول سازگار کیا جا رہا تھا اور عوام کوایک بار پھر پتھر کے دور کی طرف دھکیلنے کی ساز ش ابھی بھی کی جا رہی ہے ۔ پاکستان میں کالعدم قراردی گئی دہشت گر د تنظیموں کو حفاظتی چھتری تلے ایک بارپھر نیلم کو تاراج کر نے کا ٹھیکہ دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔شیطانوں کے ایجاد کردہ جا پانی ایکو سٹم پر جہادی ترانے گو نجیں گے اور دراز ریش نوجوان سکولوں میں جاکر کم عمر نوجوانوں کو موت کی گمنام وادی کے سفر کے فضائل سنائی گے ۔

شاہراہ کارگل کی بند ش کی بات سنتے ہی میرا خون کھول اٹھتا، جی چا ہتا کہ اس افواہ کو پھیلا نے والے کا منہ توڑدوں مگر پھرخیا ل آتا کہ یہ تو سید ھے سادھے دیہا تی اور” بلڈی سو یلین “ ہیں ان کا منہ تو ڑنے سے فا ئدہ کے بجائے الٹا نقصان ہو گا اور ایک خا نگی جھگڑا جنم لے گا ۔ افواہیں صرف شاہراہ کا رگل کی بندش تک محدود نہیں تھیں ۔ ان افواہوں کو روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ بھی کیا جاتا تھا ۔ مثلاً آج فلاں پوسٹ پر بھارت کو منہ توڑ جواب دیا گیا ، پوری کی پوری پوسٹ ہی ختم کردی ۔ پاکستا ن کی جانب سے فائر کیا جانے والا ہر میز ائل یا گولہ دوسری طرف صرف اور صرف بھارتی فو جیوں کو ہی نشانہ بنا تا ہے ۔وغیرہ وغیرہ۔

میں1999ءکی کارگل جنگ کی کامیا بی کا بھی چشم دید گواہ ہوں ، شہید ہون والے فوجی جو انوں کے لا شے جو تقر یبا ً مرنے کے دوماہ بعد اٹھا کر گھروں کو بھیجے گئے تھے وہ بھی دیکھے ہیں ۔ شاہراہ نیلم کی بندش کے الم بھی سہے ہیں۔متبادل بائی پاس روڈز کے حادثات کا بھی علم ہے اور ان کے نقصانات کے زخم بھی کھائے ہیں ۔دن کے اجا لے میں شاہراہ نیلم پر پیدل سفر کا بھی تجربہ ہے اور وہ قصے بھی سن رکھے ہیں جب شاہراہ نیلم پر مرنے والوں کے لا شے اٹھا نے والا بھی کوئی نہیں ملتا تھا ۔ 1990سے 2003تک نیلم ویلی کے عوام نے جس کرب میں زندگی بسر کی ہے ، شاید ہی کوئی دوسرا انسان یہ الم برداشت کر پا ئے ۔

ان سب دکھوں سے بڑ ھ یہ میر ے اور میر ے ہم عصروں کیلئے ایک دکھ یہ تھا کہ ہمارے تعلیمی ادارے سال کے چھ مہینے بند کر دیے جاتے تھے ۔ مئی میں جب جہادیوں کی سرگرمیاں شروع ہو تیں تو گولہ باری کا سیز ن شروع ہو جاتا ، جو پہاڑوں پر پہلی ہونے والی برف باری تک جا ری رہتا ۔پہاڑوں پر برفباری سے لانچنگ سرگرمیاں معطل ہو جاتیں اور وادی میں کچھ عرصہ سکون سے گز رتا ۔

چھٹی کلاس سے لیکر ایف اے تک ہم نے صرف 6مہینے میں پڑ ھائی کر کے امتخانا ت دیے ہیں ۔ اس کے باوجو د نیلم ویلی کے طلباءپورے ضلع مظفر آباد سے مقابلہ کر کے میرٹ پر میڈ یکل اور انجیئر نگ کی نشستیں حا صل کرتے تھے ۔

افواہوں کے ایک ماہ بعد مسا فر بس پر راکٹ لا نچر حملے کے بعد شاہراہ نیلم کو پاکستان آرمی کی جانب سے مکمل طور پر بند کردیا گیا ۔ آئی ایس پی آر کے مطا بق بھارتی فوجی نے بس پر گولہ داغا جبکہ سو شل میڈ یا پر اور طرح کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں ۔نیلم کے بعض حلقے بس کو نشانہ بنا نے والے واقعہ کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے کا مطا لبہ بھی کر رہے ہیں ۔ان کے بقول نیلم ویلی کو پاکستان میں کا لعدم قرار دیے گئے دہشت گر دوں کا مسکن بنانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور یہ راکٹ حملہ بھی اسی منصو بہ بندی کا حصہ تھا ۔ پاکستان کے بقول فوج سرحدوں کی حفاظت کیلئے تعینات ہے لیکن فوج کی جانب سے شاہراہ نیلم کو بند کر نا بھی سمجھ سے با لا تر ہے ۔

مشرف دور میں بھارت سے ہونے والے سیز فائر معائدے کی اس دور میں مکمل پاسداری کی گئی ۔ پرویز مشرف کی جانب سے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد پالیسی بھی بدل گئی ۔سیز کیے گئے جہادی دوبارہ سے متحرک ہوئے اور چھیڑ چھاڑکا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پاکستان میں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں نے سرگرمیاں شروع کیں تو عوام بھی سراپا احتجاج بن گئے ۔ 2011میں ضلعی ہیڈ کواٹر اٹھمقام میں مرد وخواتین نے احتجاج کیے مگر مقامی انتظامیہ فوج اور جہادیوں کے سامنے بے بس نظر آئی۔اسی برس قوم پرست جماعتوں نے بھی بھر پور احتجاج کیا ۔ کشمیر نیشنل پارٹی نے کیرن کے مقام پر( جہاں دریا کی دوسری جانب سو میٹر فاصلے پربھارتی فوج تعینات ہے ) امن کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اور کشمیر میں موجود کالعدم تنظیموں کے کیمپوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا مگر گو لہ اور بارو د کی طاقت والوں نے اس احتجاج اور عوامی رائے کو نظر انداز کر دیا ۔

گزشتہ ہفتے مسافربس پر ہونے والے حملہ کے بعد تین روز تک شاہراہ نیلم مکمل بند رکھی گئی ۔ حملے میں شہید ہونے والے شہر یوں کی میتیوں کو بھی لے جانے کی اجاز ت نہیں دی گئی ۔ نو سیری چیک پوسٹ پر ایک دن اور ایک رات انتظار کے بعدمجبور اً ایک میت کو واپس مظفر آباد لا کر سپر د خاک کیا گیا ۔ایک میت کو لیسو ا با ئی پاس اور کیرن با ئی پاس سے گز ار کر 22گھنٹے بعد کیل پہنچا یا گیا ۔

بعض لوگوں کا خیال تھا کہ 1990ءکی طرح اس بار بھی عوام کو بندوق کے زور پر زیر کر لیا جا ئے گا اور نیلم میں دوبارہ جنگل کا قانون لا گو کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا ۔ ہفتہ کے روز ہز اروں کی تعداد میں نیلم کے غیور اور بہادر عوام نے مظفر آباد سے امن ریلی کا انعقاد کر کے نیلم ویلی روڈ کو بحال کر ادیا ۔ نوسیری اور چلہانہ چیک پوسٹوں پر جہاں گن بردار روڈ بند کر کے الرٹ کھڑے تھے عوامی سیلاب دیکھ کر بیر کوں میں گھس گئے اورمعمول کے مطابق شناختی کارڈ چیک کرنا بھی بھول گئے ۔

تحریک آزادی کیلئے نیلم کے عوام نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں مگر تحر یک کی پشت بانی کر نے والے اس کی پیٹھ میں بار بار چھڑا گھو نپتے رہے ۔کشمیری عوام ان ہتھکنڈوں سے بخوبی آگاہ ہو چکے ہیں اور اب وہ کسی بہکاوے میں نہیں آئیں گے ۔ مجھے خد شہ ہے کہ وادی نیلم میں کا لعدم نتظمیوں کی سر گرمیاں بند نہ کی گئیں تو عوام ان کے خلاف جدوجہد کا ہی آغاز نہ کر دیں .

ضرورت اس امرکی ہے کہ وادی نیلم سے تمام دہشت گر دعناصر کا مکمل خاتمہ کیا جائے ۔اقوام متحدہ نیلم ویلی سے دو طرفہ فوجوں کا انخلاءکر کے پر امن سیاحتی علا قہ قر ار دے اور غیر ملکی سیاحوں کو علا قہ تک رسائی دی جا ئے ۔ نیلم کے عوام نے اپنے عمل سے ثا بت کردیا کہ وہ جنگ نہیں امن چاہتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے