شبیر احمد شاہ ، پیکر ایثارو وفا

دوسری جنگ عظیم کے بعدکرہ ارض پرآزادی کی کئی تحریکوں نے جنم لیا مگر طاقت اور ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کی بجائے پانی کے بلبلے کی طرح ہوا ہوگئیں۔ بھارت کی کئی ریاستوں میں آزادی کی تحریکیں برپا ہوئی مگر چانکیہ سیاست اور طاقت کے پہلے وار میں ہی ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔دوسری عالمگیر جنگ کے بعد ہی دنیا کی طویل ترین تحریک ”تحریک آزادی کشمیر“بھی ابھر آئی اور یہ تحریک آغاز سے لیکر آج تک شدومد اوربلند جذے و حوصلے سے جاری ہے۔ گو کہ کشمیری قوم اپنا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ کرسکے لیکن چانکیہ سیاست اور جدید ہتھیاروں کے باوجود بھارتی غلامی کو آج تک تسلیم نہیں کیاجو اس قوم کے زندہ ہونے کی ایک بڑی علامت ہے۔ آخر۰۷ برس تک ایک مظلوم و محکوم قوم نے کس طرح تین ایٹمی ممالک کے درمیان اور تنازع بنے خطے میں اتنی مزاحمت کی اور اپنے خواب کو ٹوٹنے سے بچا لیا؟ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے ”قربانیاں“۔

ان گنت اور لازوال قربانیوں کی بدولت ہی مسئلہ کشمیر عالمی ادارے میں دفن ہونے سے بچا رہا اور آج دنیاکے جس خطے میں بھی کشمیری مقیم یا موجود ہیں وہ اپنے وطن کے مستقبل کا خواب نہ صرف آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں بلکہ اس دیرینہ خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی استطاعت اور موقع و مناسبت کے مطابق کوششیں کررہے ہیں۔

کشمیر کی تحریک جتنی طویل ہے اتنی ہی طویل اس کے دوران پیش کی جانیوالی قربانیوں کی فہرست بھی ہے۔ یوں تو ہر گھر ، ہر خاندان ،ہر گاوں اور ہر شہر نے تحریک آزادی کو لہو سے سینچا ہے مگر بعض لوگوں نے تو پوری زندگی ہی آزادی کے لیے وقف کررکھی ہے۔ انہی لوگوں میں ایک نام ہے شبیر احمد شاہ shabbir shahہے۔”کشمیر کا نیلسن منڈیلا“ اور”ضمیر کا قیدی “کہلانے والے کشمیری سپوت نے ابھی لڑکپن میں ہی قدم رکھاتھا کہ وطن کی آزادی کے خواب نے ان سے زندگی کے باقی تمام خواب چھین لئے۔ جوانی کی دہلیز پر کب قدم رکھا یہ شاید خود ان کو بھی معلوم نہیں ہوگا کیونکہ تب یہ یا تو میدان کارزار میں بھارت سامراج کیخلاف برسر پیکار تھے یاپھر بھارتی فوج نے انہیں جیل کی کسی کالی کوٹھری میں بند رکھا تھا۔

کشمیر کی موجودہ مسلح جدوجہد کے بانی شبیر شاہ نے اول دن سے ہی اپنی زندگی قوم کے لیے وقف کردی ہے۔ جیل کی سیاہ راتیں اور صعوبتیں جتنی اس رہنما نے برداشت کیں، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ مسلسل قیدو بند کی وجہ سے ہی انہیں نیلسن منڈیلا اوراورہر وقت اور ہر محاز پر اصولوں کی بات کرنے پر انہیں ضمیر کے قیدی کے خطاب بھی نوازا گیا۔

کئی سال عسکری محاذ پر سرگرم رہنے کے بعد شبیر احمد شاہ نے ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے نام سے تنظیم قائم کی اور اسی پلیٹ فارم کے ذریعے آج تک کشمیریوں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے اوردیرینہ مسئلہ کے حل کے لیے کوششیں سرانجام دے رہے ہیں۔29 سالہ جدوجہد کے دوران شبیر احمد شاہ نے جہاں اپنا تن من دھن ارض جنت کو غلامی کے دلدل سے نکالنے کے لیے تحریک پر نچھاور کی وہیں انہیںبھارتی حکمرانوں نے سہانے خوابوں کی بڑی بڑی پیشکش کیں لیکن اس مرد مجاہد نے ان آفرز کو پائے حقارت پر رکھ کر قوم کا سر فخر سے بلند رکھا۔گوکہ مخالفین اور بعض ناقدین شبیر احمد شاہ سمیت دیگر کشمیری رہنماوں پر مال و دولت جمع کرنے کے الزامات لگاتے نہیں تھکتے لیکن جھوٹ اور کزب بینی کے پاﺅں کہاں ۔اور اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ الزام تراشی آسان ہے لیکن قربانیوں کا اعتراف کرنا بڑے دل گردے کی بات ہے۔اپنا لڑکپن ، پھر جوانی ، پھر زندگانی کسی کاز کے لیے وقت کرنا ہر ذی النفس کا مقدر کہاں۔ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ بعض لوگوں نے اس تحریک کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنا رکھا ہے مگر ایسے لوگ زیادہ دیر نہ میدان میں نہ ٹھر سکے اور وقت کے بہاﺅ کے ساتھ ان کا نام بھی لوگ بھول گئے۔

فریڈیم پارٹی کے سربراہ کے جذبہ ایثار اور قربانی کی اس سے بڑی کیا مثال ہوسکتی ہے کہ پوری حیات سامراجی طاقت کیخلاف برسرپیکار رہنے کے بعد اب اپنی دونوں آنکھیں عطیہ کرنے اور بصارت سے محروم ہونے والی انشاءکوگود لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان کرتے ہوئے ان تمام زبانوں پر تالے چڑھادیئے جو کشمیریوں اور کشمیری قیادت کی قربانیوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

سری نگر کے راج باغ تھانے میں مقےداس کشمیری رہنما کے دل میں جہاں آزادی کی تڑپ ہے وہیں انہیں بے نور آنکھوں میں دوبارہ روشنی لانے کا جذبہ بھی اتم موجود ہیں۔اپنی وصیت میںکشمیر کے فریڈم فائٹر نے کہا کہ میری تمنا ہے کہ میری وفات کے بعد ان آنکھوں سے کوئی ایک اس دنیا کو پھرسے دیکھے ،جن کی آنکھیں کشمیر کی موجودہ حکمران جماعت پی ڈی پی کے دور میںاور ان کے نام نہاد ویزن کے بھینٹ چڑھی اور بھارتی فورسز نے بینائی چھین کر ان کی دنیا میں اندھیرا پھیلادیا۔ موت اٹل حقیقت ہے اور اس دنیا سے جاتے ہوئے اگر ہم ان آنکھوں کو ان بچوں اورنابینا کے لئے عطیہ کریں تو ہم ان لوگوں کی دنیا میں روشنی لاسکتے ہیں جنھوں نے رواں انتفادہ کے دوران اپنی آنکھیں لٹاکر ہماری راہوں کو روشن کیا اور ہمارے لئے یہ صدقہ جاریہ رہے گا۔کشمیر میں اسطرح کا واقعہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے کہ جب کسی نے اپنی آنکھیں بعد از وفات کسی نابینا یا بصارت سے محروم ہونے والے فردکوعطیہ دینے کافیصلہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنی انکھیں حالیہ انتفادہ میں بصارت سے محروم ہونے والوں کےلئے عطیہ کرنے کا اعلان کریں۔

ضمیر کے قیدی اس رہنما نے ہمیشہ زندہ ضمیری کا ثبوت دیا ہے وہ چاہے میدان کارزار ہو یا سیاسی پلیٹ فارم ،دونوں پر انہوں نے اپنے اصولوں اور موقف سے بھارتی سیاست کو مات دیدی۔یہی وجہ ہے کہ پیسے اوربڑے عہدوں کے لالچ بھی اس مردآہن کے ضمیرکو خرید نہ سکے۔ وہ بھارتی چالوں اور سازشوں سے جہاں خوب واقف ہیں وہیں بھارتی فوج کے مظالم کے شکار اپنے لوگوں کے دکھ درد سے بھی باخبر ہے اورہمیشہ متاثرین کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس جذبے کی ایک کڑی پیلٹ متاثرہ لڑکی انشاءمشتاق کو تا حیات گود لینے کا اعلان بھی ہے۔

کشمیر کے جنوبی علاقہ شوپیاں کی انشاءمشتاق حالیہ انتفادہ کے دوران آنکھوں پر پیلٹ لگنے کی وجہ سے اپنی بینائی سے محروم ہوئی ہیں۔متاثرہ لڑکی انشاءمشتاق کو گود لینے اور اس کی تاحیات مکمل کفالت کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے شبیر احمد شاہ نے کہا کہ جس طرح میں اپنی دو بچیوں کی پرورش کررہا ہوں ،اسی طرح میں انشاءمشتاق کو اپنی تیسری بیٹی تسلیم کرتے ہوئے اس کی کفالت کروں گا۔

آزادی سے بڑ کر اس دنیا میں کوئی بڑی نعمت نہیں ہے یہ احساس تب معلوم ہوتا ہے جب انسان کسی ایسے ملک میں جاتا ہے جہاں کے شہری آزادی سے سانس لیتے ہو۔ حق آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے تاہم دنیا میں کئی قومیں ایسی ہیں جو آج تک اس حق کے بس نام سے ہی واقف ہے اور اس حق کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔کشمیری بھی ایک ایسی ہی بدنصیب قوم ہے۔اگرچہ بھارت اس حق سے انکاری ہے اور تحریک آزادی کو دبانے کی ہر ممکنہ حربے استعمال کررہا ہے لیکن جو قوم جذبہ آزادی سے سرشار ہو، جس قوم کا بچہ بچہ آزادی کا خوب دیکھ رہا ہو، جس قوم کے قائد اپنے آنکھیں تک قربان کرنا چاہتے ہوں ایسی قوم کو بھارت تو کیا کوئی طاقت آزادی سے محروم نہیں رکھ سکتی۔ ہاں البتہ شومئی قسمت یہ ہے کہ ابھی تک پوری قوم متحد نہ ہوسکی۔ جس دن قوم ایک ہوگئی اور ایک نعرہ آزادی بلند ہوا او ر روز طلوع آزادی ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے