میں شکریہ راحیل شریف نہیں کہہ سکتا

میں جب بھی لفظ شکریہ کہنے کے لیے منہ کھولتا ہوں میرے دماغ میں وہ اعداد و شمار گردش کرنے لگتے ہیں ، جن کا ہر عدد لہو میں ڈوبا ہوا ہے اور اس لہو کی مکمل ذمے داری حکومت وقت اور تمام سیکورٹی فراہم کرنے والوں پر یکساں عائد ہوتی ہے ۔

2003 سے 2016 تک ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر میں ہم 21480 شہری، 6659 سیکورٹی اہلکار گنوا چکے ہیں جب کے جواب میں ہم نے 33297 دہشت گردوں کو بھی جنم رسید کیا مگر میزان دیکھیں تو نقصان کا فرق بہت تھوڑا ہے ۔

2013 سے 12 نومبر 2016 تک ہمارے 8162 شہری اور سیکورٹی فراہم کرنے والے افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ، جب کہ دوسری جانب 8137 دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا جا چکا ہے ، اسی طرح 2013 سے نومبر 2016 تک چھوٹے بڑے بم دھماکوں کے 1305 واقعات پیش آئے جن میں مجموعی طور پر 3450 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔

ملک میں امن لانے کی یہ وہ قیمت ہے جو ہم ہر سال ادا کر رہے ہیں ، مگر مکمل امن تو اس رادھا کی طرح ہے جو نو من تیل کے انتظار میں ہے ایک طرف موجودہ حکومت بظاہر ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے میٹرو ، اورنج ٹرین موٹر وے اور سی پیک جیسے منصوبے عوام کو دے رہی ہے مگر دوسری طرف اس کی قیمت صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبے ادا کر رہے ہیں جو بری طرح نظر انداز کیے جا رہے ہیں ۔

گذشتہ تین برس سے پاکستان کی عوام وزیر اعظم سے زیادہ بری فوج کے سربراہ کی جانب آنکھوں میں شکریے کے دیپ جلائے دیکھ رہی ہے ، ہر کامیابی کا سہرہ اُن کے سر اور ہر ناکامی کی وجہ موجودہ حکومت کی خراب کارکردگی، یہ ہمارا وہ عمومی مزاج ہے جو ہم روا رکھتے ہیں ، اگر کوئی شخص اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے سر انجام دیتا ہے تو ہم حیران ہونے کے ساتھ ساتھ اُسے اپنا ہیرو بنا لیتے ہیں ، چاہے اس شخص کے لیے گئے غلط فیصلوں سے بعد میں ہمیں کتنا ہی نقصان کیوں نا ہو جائے ۔

کچھ ماہ قبل میں نے محترم راحیل شریف کا شکریہ ادا کیا تھا آج میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ آپ کا واقعی شکریہ کے آپ نے اپنی ملازمت میں تو سیع کے حوالے سےتمام امکانات کو ختم کر دیا اور قانون کے مطابق مقرر کردہ تاریخ پر اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے، مگر اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اس چیز کے علاوعہ میں آپ کا کس چیز پر شکریہ ادا کروں؟ ملک کی سرحدوں کی حفاطت کرنا آپ کی اولین ذمے داری تھی ، دنیا کی عظیم دلیر اور با صلاحیت فوج کا سربراہ بننا آپ کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے لیے ایک بھاری ذمے داری بھی تھی، دشمنوں نے کئی بار لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ، کئی چھوٹے حملے کیے اور ہمارے کئی جوان فرض کی راہ میں اپنی جاں وطن پر قربان کر بیٹھے، ہم نے جواب دیا اور دشمن کی توپیں خاموش کروا دیں مگر کہیں نا کہیں ہم کسی سطح پر یہ خلش محسوس کر سکتے ہیں کہ صرف ہمارا ہی اتنا بھاری نقصان کیوں؟ یا یہ کہ پلٹ کے بھاری بھرکم جواب دینے میں کیا مصلحت آڑے تھی؟

دہشت گردوں کا ملک سے خاتمہ آپ کی ہی نہیں پوری عوام کی خواہش ہے، اور شاید اس خواہش کو کامیابی سے ہمکنار دیکھنے کے لیے آپ افغانستان اور ہندوستان کو ڈھیل دے بیٹھے یہ بات بھی کسی حد تک بظاہر سننے میں آئی کہ آپ ملک کی خارجہ پالیسی پر بالواسطہ طور پر اثر انداز رہے ہیں اب جو بھی ہے اس کے ثمرات کہیں نا کہیں عوام کو ہی بھگتنا ہوں گے ۔

میں سوچتا ہوں کے میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے اپنے دور ملازمت میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا رینک لیفٹنٹ جنرل کر دیا، مگر میں سوچتا ہوں کہ افواج کا کیا اس قدر میڈیا پر اثر انداز ہونا یا اسے استعمال کرنا کسی طرح سود مند ہو سکتا ہے، شاید شکریہ کہنے کی حد تک ہو سکتا ہو! مجھے تو یہ کسی طور مناسب نہیں لگتا کہ میری فوج کا ایک شعبہ صرف ٹوئیٹ کے ذریعے سیاسی یا غیر سیاسی بیانات اور اعلانات شائع کرے، کیا اس کام کے لیے وزارت دفاع موجود نہیں؟ یہ بھی ہے کہ جمہوری حکومت کہیں نا کہیں اپنے کیے گئے اقدامات اور کارکردگی کی بنیاد پر پسندیدہ نہیں کمزور بھی ہے ، مگر کیا سول حکومت کی کمزوری کے تسلسل میں آپ کا کوئی حصہ نہیں ؟

جنرل(ر) پرویز مشرف کا احتساب مکمل نہیں ہو سکا اور اس کے مکمل نے ہونے میں کیا قوت کار فرما تھی کیا آپ جانتے ہیں؟ فوجی اختیارات میں اضافے کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا، آئین میں ترمیم کر کے فوجی عدالتیں بناوئی گئیں مگر ان کی کارکردگی کیا رہی ؟ کچھ جنرلز کا احتساب ہوا مگر کیا اُن کو کوئی قرار واقع سزا دی گئی؟ یا وہ احتساب ایک سبز باغ ہی رہا؟ سندھ میں آپریشن شروع کیا گیا اور اس کے ثمرات سب کے سامنے ہیں مگر کیا پنجاب میں کوئی کرپشن نہیں وہاں آپریشن شروع کیوں نہیں کیا پھر کسی احساس محرومی کو تو نہیں جنم دیا جا رہا؟

بلوچستان میں گذشتہ کچھ برس میں آٹھ ہزار سےزائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا 1800 کے قریب ٹارگٹڈ آپریشن کیے گئے نیشنل ایکشن پلان کے تحت 2600 کے قریب این جی اوز کو بھی پاپندی کا نشانہ بنایا گیا مگر ان سب چیزوں کے باجود بلوچستان کی عوام کا احساس محرومی کیوں بڑھ رہا ہے ؟

میں جب بھی شکریہ ادا کرتا ہوں دہشت گرد اپنی ٹوٹی ہوئی کمر کے ساتھ حملہ کر جاتا ہے اور میرا شکریہ آہ وبکا میں بدل جاتا ہے ، میں سوچتا ہوں کیا میں کبھی وہ دن دیکھ پاوں گا جب میرے وطن کے جمہوری ادارے ہی سب سے زیادہ طاقتور ہونگے؟

کیا یہ ممکن ہے ؟ ہر ادارہ آئین کی مقرر کردہ حد میں رہ کر کام کرے اور کسی طور اپنے مفاد کے لیے آئین میں ترمیم نا کرواسکے! میں چاہتا ہوں کہ فوج اور اداروں میں محبت اور برابری کا رشتہ قائم ہو خوف اور ڈر کا نہیں کیا یہ ممکن ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے