چَھڑا راجہ چَھڑی رانی

چھڑی کے اشارے پر رقص کرتے گھوڑوں کی سرشت میں یہ بات شامل ہوجاتی ہے کہ جس طرف چھڑی کا اشارہ ہوگا وہ اُسی جانب حرکت کرتے ہیں۔چھڑی کے اشارے کے بغیر ان سے اپنی مرضی کا رقص کروانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک ہی قسم کی چھڑی کے عادی ہوجاتے ہیں۔

ایک چھڑی ہمارے ملک میں بھی طاقت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں بھی وہ چھڑی ہوتی ہے وہ اسے اپنی مرضی کے مطابق گھمانے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ کبھی دائیں بائیں کبھی اوپر نیچے۔

دائیں جانب جب چھڑی کا رخ ہوتا ہے تو بایاں بازو خوش ہوتا ہے۔ جب بائیں جانب چھڑی کا رخ ہوتا ہے تو دایاں بازو خوشی سے پھولا نہیں سماتا۔ اگر اس چھڑی کا رخ نیچے کی جانب ہی رہے تو زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ جب یہ چھڑی اٹھتی ہے تو ملک سے جمہوریت اٹھالی جاتی ہے۔

یوں تو اس چھڑی کو ایک مخصوص عرصے کے لئے ایک خاص فرد کے ہاتھ میں رہنا ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی اس شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ مقررہ وقت پورا ہونے پر یہ چھڑی کسی اور کے حوالے کرتا ہے یا نہیں۔ جب تک وہ چھڑی کسی بھی خاص فرد کے ہاتھ میں رہتی ہے۔

عوام ، حکمران اور میڈیا کی نظریں اس چھڑی پر جمی رہتی ہیں۔ اس طلسماتی چھڑی کا نام ملاکا چھڑی ہے۔ ملاکا ایک درخت کا نام ہے جو ملائیشیا کی ریاست ملاکا میں بکثرت پایا جاتا ہے۔ اس درخت کی لکڑی سے یہ چھڑی بنائی جاتی ہے۔

جو مختلف ملکوں کے سپہ سالاروں کے ہاتھ میں رہتی ہے اور فوج کی کمان کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس چھڑی کو چھڑیوں کی بادشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ رانی شاید اس لئے نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ ہمیشہ فوج کے بادشاہ کے ہاتھ میں رہتی ہے رانی کے ہاتھ میں نہیں۔

ویسے رانی کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ فوج کی کمان ہمیشہ بادشاہ کے پاس ہی کیوں رہتی ہے کوئی رانی آخر کیوں نہیں سپہ کی سالارنی بن سکتی۔ اگر یہ چھڑی رانی ہے تو ضرور کوئی چھڑا راجہ بھی ہوگا۔

چھڑا راجہ بھی یقیناَ انہی افراد میں سے کوئی ہوگا جن کے ہاتھوں میں یہ چھڑی رانی مختلف وقتوں میں رہی ہوگی۔ اُس چھڑے راجے کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چھڑا چھڑی کی جوڑی بنائی جاسکے۔ اگر کسی کو چھڑے راجے کا نام معلوم ہے تو وہ تبصرہ کرسکتا ہے۔

چلیں اب چھڑے راجے کا ذکر چھوڑیں ایک اور راجے کی بات کرتے ہیں جس راجے کا تعلق اس چھڑی رانی کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اُس راجے کا نام تھا پرمیشورا تھا جس نے چودھویں صدی عیسوی میں ملاکا سلطنت قائم کی تھی۔

انڈونیشیا کے جزیرے جاوا پر قائم مجاپاہت سلطنت جب زوال کا شکار ہوئی تو وہاں کے شہزادے پرمیشورا نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تیماسک کے علاقے کا رخ کیا۔ جہاں تیماسک کے حکمران تیماگی نے اُسے خوش آمدید کہا۔

بعد ازاں پرمیشورا نے تیماگی کو قتل کیا اور خود تیماسک کا حکمران بن گیا۔ تیماگی دراصل سیامی سلطنت کا نمائیندہ تھا۔ سیامی سلطنت کا مرکز موجودہ تھائی لینڈ ہوا کرتا تھا۔ تھائی لینڈ میں پائی جانے والی ایک بلی کو آج بھی سیامی بلی کہا جاتا ہے۔

تیماگی کی ہلاکت کے پانچ سال بعد سیامی فوج نے تیماسک پر حملہ کیا اور پرمیشورا کو شکست ہوئی۔ شکست کے بعد پرمیشورا مختلف راستوں سے ہوتا ہوا ملاکا پنہچا جو اس وقت مچھیروں کی ایک بستی تھی۔

اُس نے اس بستی کو ملاکا کا نام دیا جو کہ اس علاقے میں بکثرت پائے جانے والے ایک درخت کا نام ہے۔ جس کی لکڑی سے چھڑی رانی یعنی ملاکا چھڑی تیار کی جاتی ہے۔ پرمیشورا اس وقت تک چھڑا ہی تھا جب اس نے اس بستی کو ملاکا کا نام دیا تھا۔

بعد ازاں پرمیشورا نے پسائی کے علاقے کے مسلمان حکمران کی بیٹی سے شادی کی اور اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام اسکندر شاہ رکھا۔ آگے چل کر ملاکا سلطنت زوال کا شکا ہوئی اور اس پر پرتگالیوں کا قبضہ ہوگیا پھر وہاں ولندیزی بھی آئے اور انگریز بھی۔

31 اگست 1957 کو ملایا نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور 16 ستمبر 1963 کو ملائیشیا کا قیام عمل میں آیا۔ آج ہم پر برسوں حکومت کرنے والی چھڑی رانی کا شہر ملاکا ملائیشیا کا تاریخی شہر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے