کاسترو، خواب پرستوں کا ہیرو

دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد تیسری دنیا میں جو نسل پیدا ہوئی، اس نے بدترین دنوں میں روپہلے اور سنہرے دنوں کے خواب دیکھے، سوویت یونین میں انقلاب کامیاب ہوچکا تھا اور اس نے بہت سے لوگوں کو اُکسایا تھا کہ وہ بھی جبر سے آزادی اور غلامی سے رہائی کے خواب دیکھیں۔

یہی دن تھے جب بحر اوقیانوس اور کیریبین سی کے درمیان سانس لیتے ہوئے اور جنگلوں کی بانہوں میں آرام کرتے ہوئے ایک جزیرے نے آزادی کے خواب دیکھے۔ یہ بتستا جیسے سفاک ڈکٹیٹر کے چنگل سے رہائی کے خواب تھے، جس نے چند برس کی حکومت میں 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا، ہزاروں کو جیل میں رکھا اور ملک میں بدعنوانی عام کردی۔

وہ جزیرہ جسے ہم کیوبا کے نام سے جانتے ہیں، کرسٹوفر کولمبس کے جہاز 20 اکتوبر 1492ء کو اس کے ساحل سے لگے۔ ہوس زر کے مارے ہسپانوی یہاں سونے اور جواہرات کی لالچ میں آئے تھے لیکن جب انھیں اپنی اس تلاشی میں ناکامی ہوئی تو انھوں نے اپنا غصہ مقامی باشندوں پر اتارا۔ ہزاروں کی تعداد میں مقامی باشندے موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ جبری مشقت کے لیے جہاز بھر بھر کے سیاہ فام غلام یہاں لائے گئے جن سے غیر انسانی حد تک گنے اور تمباکو کے کھیتوں
میں مشقت لی گئی۔

کاسترو نے کتنی شہرت کمائی، اس کا اندارہ آج کی نسل نہیں کرسکتی۔ وہ اپنے نوجوان گوریلوں کے ساتھ پہاڑوں سے اترا، لوگوں کو بتستا جیسے آمر سے نجات دلائی اور پھر اپنا رشتہ سوویت یونین سے جوڑا۔ لاطینی امریکا کے بیشتر ملکوں سے اس کے بہترین تعلقات رہے۔ 1961ء میں وہ دنیا کے ہر ملک میں پہچانا جانے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے سوویت یونین کے نیوکلیائی میزائل ’’بے آف پگز‘‘ میں نصب کرانے شروع کردیے تھے۔

دنیا کا ہر باشعور شہری سانس روکے بیٹھا تھا کہ جانے کس لمحے دنیا کی دونوں عظیم طاقتوں کے درمیان اس مسئلے پر جنگ چھڑ جائے۔ ایک ایسی جنگ جس میں دنیا نیوکلیائی راکھ میں تبدیل ہوجائے گی۔ وہ بحران بڑے بڑے دانشوروں اور سیاستدانوں کی سفارت کاری اور سمجھداری کے باعث ختم ہوا لیکن کاسترو کا دنیا میں سکہ جم گیا۔

کاسترو ایک خوش حال باپ کا بیٹا تھا۔ کتابیں اسے اچھی لگتی تھیں لیکن ڈگری لینے سے کہیں زیادہ دلچسپی اسے کھیلوں سے تھی۔ اس نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے لا کالج میں داخلہ لیا اور ان ہی دنوں وہ طلبہ کی سیاست سے متعلق ہوگیا، جہاں اس نے ایمانداری، شائستگی اور انصاف کے نعرے کے ساتھ کالج کی سیاست میں حصہ لیا مگر ناکام رہا۔ اسے کیوبا میں امریکی مداخلت گوارا نہ تھی اور اس کے خلاف وہ رائے عامہ ہموار کرتا رہا۔ وقت کے ساتھ ہی اس کا جھکاؤ مارکس، اینگلز اور لینن کے خیالات کی طرف ہوتا گیا۔

وہ مختلف مظاہروں کی قیادت کرتا اور اس کی شعلہ بیانی اس کے دشمنوں اور دوستوں سب ہی کو متوجہ کرنے لگی تھی۔ 1953ء کی ایک تقریر میں اس نے کہا تھا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو ہمارے خوابوں کو تعبیر مل جائے گی اور اگر ہم ناکام رہے تو وہ نوجوان سامنے آئیں گے جو ہمارے خون میں ڈوبے ہوئے پرچم اٹھا کر آگے بڑھیں گے۔ ہمارا اور ان کا نعرہ یہی ہوگا کہ ’آزادی یا موت‘۔ اس نے اپنی زندگی گنے کے کھیتوں میں گزاری، لیکن گنے کی مٹھاس اس کے اندر کی تلخی کو کم نہ کرسکی جو آمریت کی ناانصافیوں نے اس کے وجود میں پرورش کی تھی۔

کاسترو اور اس کا ساتھی چی گویرا جو ارجنٹائن میں پیدا ہوا تھا، دنیا کے نوجوانوں میں فلمی اداکاروں اور شہرت یافتہ کھلاڑیوں سے زیادہ مقبول ہوئے۔ دونوں کی تصویروں والی سرخ اور سیاہ ٹی شرٹس آج تک دنیا کے تمام ملکوں کے نوجوانوں کے بدن پر نظر آتی ہیں۔

اس نے 1956ء سے 1959ء تک وہ گوریلا جنگ لڑی جو آخرکار اس کی فتح پر منتج ہوئی۔ یہاں سے اس شخص کی داستان شروع ہوتی ہے جس نے 48 برس تک کیوبا پر بلاشرکت غیرے حکومت کی۔ اس دوران وہ انقلاب دشمنوں سے چومکھی لڑائی لڑتا رہا۔ کیوبن میزائل بحران سب سے سنگین تھا جس میں سوویت یونین نے کیوبا کی سرزمین سے ایٹمی میزائل ہٹانے کا فیصلہ اس شرط پر کیا کہ امریکا ترکی اور اٹلی سے اپنے نیوکلیائی میزائل ہٹا لے گا۔

یہ ایک لمبی کہانی ہے جسے اگر تفصیل سے پڑھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کو اس چھوٹے سے جزیرے سے کس قدر خطرہ محسوس ہوتا تھا، شاید یہ ان کی انا کی شکست تھی۔ اسی زمانے میں کاسترو نے امریکا سے گوانتاناموبے کے بحری اڈے کو خالی کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا لیکن یہ مطالبہ آخر تک تسلیم نہیں کیا گیا اور عراق جنگ کے بعد یہ جس طرح عراقی فوجیوں اور طالبان رہنماؤں کی عقوبت گاہ کے طور پر استعمال ہوا، اس سے ہم سب واقف ہیں۔

سعید حسن خاں جن کی کتاب Across the Seas پچھلے برس شایع ہوئی، وہ اس دور کے نوجوانوں کا قصہ ہے جن کے خواب مشترک تھے اور جو ان خوابوں کی تعبیر کے لیے ملکوں ملکوں پھرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکا کیوبا سے کیسی مخاصمت رکھتا تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ فری یونیورسٹی آف نیویارک کا ایلن کرب جو نیویارک کی ایڈلن یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتا تھا اور اس گناہ میں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا کہ اس نے 1964ء میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے اجازت لیے بغیر کیوبا کا سفر کیا تھا۔ بقول سعید حسن خاں ’میکارتھی موت کی نیند سوگیا تھا لیکن امریکا میں میکارتھی ازم زندہ تھا۔‘

کیوبا امریکی حکمرانوں کے پہلو میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا لیکن فیڈل کاسترو نے امریکی حکمرانوں کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی کہ وہ اسے اپنے پہلو سے نکال پھینکیں۔ اس کے قتل کی کتنی ہی سازشیں ہوئیں، اس کے خلاف بغاوتیں ہوئیں، لیکن ہر سازش اور ہر بغاوت ناکام ہوئی۔ آج اس کے چاہنے والوں کو اس بات کی خوشی ہے کہ وہ جس کے جنگی نعروں اور للکار کی گونج امریکا تک جاتی تھی، وہ ایک فطری موت سے دوچار ہوا۔ زہر کا پیالہ، ریوالور کی گولی، توپ کا گولہ اور دست قاتل میں چھپا ہوا خنجر اس کی شہ رگ تک نہیں پہنچ سکا۔ تیسری دنیا اور بطور خاص جنوبی امریکیوں کے لیے بغاوت اور انقلاب کا استعارہ دمکتے ہوئے ستارے کی طرح غروب ہوا۔

کاسترو حکومت کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس نے عوام کو تعلیم، صحت اور رہائش کی وہ سہولتیں مہیا کیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ آج کیوبا میں تعلیم کی شرح دنیا میں بلند ترین ہے۔ یہاں کے ڈاکٹر دنیا بھر میں کسی بھی سانحے یا حادثے کے موقع پر سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور لوگوں کے کام آتے ہیں۔ وہ عوامی اجتماعات میں یہ سوال اٹھاتا کہ ایسا کیوں ہے کہ بہت سے لوگ ننگے پیر رہیں تاکہ کچھ لوگ پُرتعیش کاروں میں سفرکر سکیں۔ کچھ لوگ 70 برس کی زندگی جیئیں جب کہ اکثریت 35 برس میں ایڑیاں رگڑ کر مرجائے۔ میں دنیا کے ان بچوں کی طرف سے آواز اٹھاتا ہوں جنھیں بستر کے نام پر پھٹی ہوئی چادر میسر نہیں اور جنھیں روٹی کا ایک ٹکڑا نہیں ملتا۔

صحت کی خرابی کے باعث 2008ء میں اس نے اپنی ذمے داریاں اپنے بھائی راؤل کو سونپ دیں۔ اس کے بعد سے وہ پس پردہ امن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا۔ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان سنگین تناؤ کے دوران اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ جنگ دونوں فریقوں کے لیے تباہی کا پیغام لائے گی اور یہ بھی کہا کہ یہ کشاکش کیوبا کے میزائل بحران کی طرح نیوکلیائی جنگ کے امکانات اور خطرات رکھتی ہے۔ اسے امریکا پر ذرہ برابر اعتماد نہیں تھا اور ہوتا بھی کیوں کہ وہ 48 برس تک اپنے ملک کے اور خود اپنے وجود کے لیے امریکی خطرے سے لڑتا رہا تھا۔ یہ اس کی بداعتمادی کی انتہا تھی کہ جب امریکی صدر بارک اوباما کیوبا گئے اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کا سفر شروع ہوا تو اس نے امریکی صدر سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا۔

وہ ایک قوم پرست، سوشلسٹ، مارکسسٹ اور لینن اسٹ تھا۔ اس نے کبھی اپنی اس وابستگی کو چھپایا نہیں بلکہ اپنی اس شناخت پر فخر کرتا رہا۔ عالمی امن کے بارے میں اس کی فکرمندی اور اس کی جدوجہد پر اسے مغرب سے داد نہیں مل سکتی تھی لیکن چینیوں نے اسے ’’کنفیوشس امن انعام‘‘ سے نوازا۔ اس کا خیال تھا کہ عورتوں کو ان کے حقوق دیے بغیر کوئی بھی سماج ترقی نہیں کرسکتا، اس بات نے اسے تحریک نسواں کی محبوب شخصیت بنادیا۔

بغاوت، مزاحمت اور انصاف کا متلاشی یہ شخص دنیا کے خواب پرستوں کا ہیرو بن گیا۔ وہ 90 برس تک جیا اور اس بڑھاپے میں بھی اس کے گرد رومان کا ہالہ تھا۔ یہ مقام کبھی کبھی کسی خوش نصیب کے حصے میں آتا ہے۔

بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے