’’میں بیٹا چاہے جس کا بھی ہوں ملازم میں عوام کا ہوں‘‘

[pullquote]ڈرامہ سیریل ’’جان نثار‘‘ کا ایک جائزہ[/pullquote]

گزشتہ چند سالوں میں دسمبر کا مہینہ پشاور شہر کے لئے کافی بدقسمت رہا ہے ۔ دسمبر2009 بھی ان مہینوں میں سے ایک ہے ۔ میں پشاور پریس کلب جانے کے لئے رکشے میں بیٹھا ہی تھا کہ موبائل پر ایک صحافی دوست کی کال آئی ۔ اس نے پوچھا کہ آپ کہاں ہو ۔ میں نے جواب دیا کہ پریس کلب جا رہا ہوں۔ جواب میں اس نے دل و دماغ کو شاک پہنچانے والی خبر سنائی کہ پشاور پریس کلب پر خود کش حملہ ہو گیا ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے ان سب صحافی دوستوں کے چہرے گھومنے لگے جو ان دنوں باقاعدگی سے پریس کلب جاتے تھے۔ ایک ایک کر کے سب کی خیریت معلوم کرنے لگا۔ بعد میں آنے والی خبروں سے پی چلا کہ پریس کلب کے گیٹ پر تعینات پولیس ہیڈ کانسٹیبل ریاض الدین خان نے خودکش کو روکا اور اپنی جان قربان کر کے پریس کلب پشاور میں موجود صحافیوں کو زندگی بخش دی۔ کراچی تا پشاور اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں ۔جن میں پولیس کے ہائی آفیسرز سمیت ہزاروں پولیس والوں نے جانیں قربان کی۔ اس کے ساتھ ساتھ جرائم کی روک تھام کے لئے بھی پولیس نامناسب وسائل میں اپنا کردار نبھا رہی ہے۔

پاکستانی میڈیا میں پولیس کے کردار کو ہمیشہ منفی رجحانات جیسے کرپشن یا تشدد سے جوڑا جاتا ہے۔ حالاںکہ پولیس نے گزشتہ دہائی میں اپنے معمول کے کاموں کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ لیکن ان کو میڈیا میں مناسب طرح اجاگر نہیں کیا گیا

اے ٹی وی اور اے پلس (A plus) پر چلنے والا ڈرامہ ’’جان نثار‘‘ پولیس کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک کاوش لگتی ہے۔ یہ ڈرامہ پاکستانی پولیس کے کردار کو اجاگر کرتا ہے ۔ اس ڈرامے میں محکمہ پولیس کے اس کردار کو دکھایا گیا ہے ۔ جو وہ کم وسائل کے باوجود معاشرے میں جرم اور دہشت گردی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ادا کر رہے ہیں۔

’’خدا زمیں سے گیا نہیں ہے‘‘ ، ’’فصیل جاں سے آگے‘‘ اور ’’کس سے کہوں‘‘ کے پروڈیوسر خاور اظہر کی ایک ایسی پروڈکشن ہے جو پولیس کی قربانیوں اور ادارے میں اصلاحات کے ایجنڈے کو اجاگر کر رہی ہے ۔

13 قسطوں پر مشتمل ڈرامہ سیریل جاں ںثار کو مقبول ہدایتکار عامر یوسف نے پیش کیا ہے جبکہ عامر رضا نے اس ڈرامے کو تحریر کیا ہے۔ ابھی تک ڈرامے کی سات اقساط نشر کی گئی ہیں۔ مصنف نے ڈرامے میں جنسی استحصال ، گھریلو تشدد ، جہیز کی لعنت اور خواتین کی ٹریفکنگ کو بڑے اچھوتے انداز میں موضوع بنایا گیا ہے ۔

‘جانثار ‘ ایک تھانے کی کہانی ہے ۔ جہاں پولیس اپنے روایتی طریقوں سے کام کرتی ہے ۔اس وجہ سے علاقے میں جرائم کا گراف روز بروزبڑھ رہا ہے ۔تھانے کا ایس ایچ او نواز خان بے انتہا کرپٹ افسر ہے۔اس تھانے کے دیگر ماتحت بھی کچھ نہ کچھ کرپٹ ہیں۔ان میں موجود نیکی کے عنصر پہ برائی معاشی مشکلات کا بہانہ بناتے ہوئے غالب آ جاتی ہے ۔ایس ایچ او کے کہنے پر انہیں رشوت طلب کرنی پڑتی ہے۔اس تھانے کی حدود میں اغوا ،ڈکیتی ،چوری ،قتل،گریلو تشدد ،منشیات اور دیگر جرائم ہوتے ہیں ۔بہت سے جرائم پولیس کے پاس رپورٹ نہیں ہوتے ۔علاقے میں جرائم کا بڑھتا ہواگراف دیکھ کر ایس ایس پی ایک نوجوان ایس ایچ او جنید خان کو وہاں پر تعینات کرتا ہے جو ابھی پولیس ٹرینگ اکیڈمی سے فارغ ہوا ہے۔جنید خان اس کے دوست اسد خان کا بیٹا ہے جو کہ ایک بڑا زمیندارہے ۔ جنید تھانے کو جدید خطوط پر استوار کرتا ہے اورتھانہ کلچر میں چھوٹی چھوٹی اصلاحات لے کر آتا ہے ۔اس کا مقصد پولیس کے ’’ motto خدمت خلق عین عبادت ہے ‘‘ کو پھر سے قابل اعتبار بنانا اور علاقے سے جرائم کا خاتمہ کرنا ہے کا شوقین ہے ۔

دوسری جانب ڈرامے میں میڈیا کے کردار کو بھی دکھایا گیا ہے۔ جس میں کرائم شو ہوسٹ سارا پولیس کے بارے میں منفی چیزوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے ۔ وقت سے پہلے سارا کی نشر کی گئی کچھ خبریں پولیس کی مدد کی بجائے پولیس کو فائدہ دیتی ہیں۔ تیسری جانب سیاستدانوں اور انڈر ورلڈ کے کردار کو بھی دکھایا گیا ہے۔

جنید ایس ایچ او کے کچھ جملے ڈرامے کے موضوع کو مزید نمایاں کرتے ہیں۔ جیسا کہ ’’پولیس سیاستدانوں کے گھر کی باندی نہیں ہے ۔اگر اب کچھ نہ کیا تو بہت دیر ہو جائے گی‘‘
یا ’’میں بیٹا چاہے جس کا بھی، ملازم میں عوام کا ہوں‘‘ ڈرامے کے مرکزی کرداروں میں سہیل سمیر، نعمان اعجاز ، نیر اعجاز اور غنا علی شامل ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے