کاسترو کی زندگی کی گیارھویں حقیقت

اجمل کمال کا ’’آج ‘‘کمال کا رسالہ ہے۔ اردومیں ایسے رسالے کی نظیر نہیں ملتی۔ فیڈل کاستروکے مرنے پر ہمیں گارسیا مارکیز پر ’’آج ‘‘ کا وہ خصوصی شمارہ یاد آیا، جس نے اردو میں وسیع پیمانے پر اس عظیم ادیب کو متعارف کرایا۔

اس شمارے میں مارکیز کا نہایت عمدہ انٹرویو شامل ہے جو انگریزی میں The Fragrance of Guava کے نام سے چھپا تھا، اسے اجمل کمال نے ’’امرود کی مہک ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے ۔ یہ انٹرویو مارکیز کی شخصیت اور فن کی جانکاری کے لیے کسی بھی نقاد کی تحریر سے بڑھ کر اعانت کرتا ہے ۔ یوں بھی تخلیق کار سے زیادہ اس کے فن کا محرم رازکون ہوسکتا ہے ؟ نسرین انجم بھٹی نے کسی زمانے میں ن م راشد کا انٹرویو کیا تھا جسے پڑھ کراجمل کمال اس نتیجے پر پہنچے کہ ’ راشد کی شخصیت اور شاعری سمجھنے میں جتنی مدد اس انٹرویو سے ملتی ہے ، ان پرتنقیدی تحریروں سے نہیں ملتی۔‘

ساٹھ کی دہائی میں انتظار حسین نے جب یہ کہا کہ انھوں نے کہانی لکھنا اپنی نانی اماں سے سیکھا تو ادبی حریفوں نے ان کی خوب کلاس لی۔ دو برس پہلے مارکیز نمبر کتابی صورت میں شائع ہوا توہم نے اسے انتظار صاحب کو پیش کیا اور کہا کہ اس انٹرویو کو لازمی پڑھیں کیونکہ اس میں علاوہ اور بہت سی باتوں کے مارکیز نے بتایا ہے کہ اس نے کہانی لکھنے میں نانی اماں سے بہت کچھ جانا۔

اجمل کمال کے بقول ’’مارکیز کی زندگی، فن اور مختلف موضوعات کے بارے میں اس کے خیالاتaaj2 پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس متن سے قصہ گوئی کے فن پر مارکیز کی بے پناہ قدرت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ ‘‘

مارکیز نے اس انٹرویو میں مختلف عالمی رہنماؤں سے اپنے مراسم کا ذکر کیا ہے۔ فیڈل کاستروکے بارے میں ان کے تاثرات سے معلوم ہوتا ہے کہ کیوبا کے عظیم رہنما کتابوں کے رسیا تھے ۔ دو دفعہ ان نے مارکیز کی تحریر میں موجود غلطی کی تصحیح کی ۔کاسترو ادب کے پرشوق قاری تھے ،اس کی گواہی مارکیز نے دی ہے، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ وہ مطالعہ کے لیے اتنا وقت آخر کہاں سے نکال لیتے تھے جب کہ ہمیں ’’ہم سب ‘‘کے ایک مضمون نگار نے بتایا کہ ان کے 35000عورتوں سے جنسی تعلقات رہے اور چار عشروں تک ان کا یہ معمول رہا کہ روزانہ دوپہر اور شام کو دو مختلف خواتین کے ساتھ تخلیہ کرتے ۔

اس تحقیق پرعش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ حسنین ہیکل نے ایک دفعہ کہا تھا ’مغرب عالمی ذرائع ابلاغ پر اتنی کامل دسترس رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے تیسری دنیا کے کسی بھی لیڈر کو سارے جہان میں بدنام کرنے کی مہم چلا کر پنجرہ میں بند پرندہ کی طرح بے بس کردے۔ ‘ خیر، کاسترو کی ذاتی زندگی کے ’’دس ناقابل تردید حقائق‘‘ تو آپ پڑھ چکے ، اب کاسترو کی ذاتی زندگی سے جڑی ایک حقیقت کو مارکیزکی زبانی جان لیں ،جو انھوں نے اس انقلابی سے براہ راست سنی تھی: ’’ اپنے اگلے جنم میں میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں۔‘‘ مارکیز کے بقول:

’’فیڈل کاسترو سے میری قریبی اور دلی دوستی کا آغاز ادب کے حوالے سے ہوا۔ انیس سو ساٹھ کے دوران پرینسا لاطینا میں ملازمت کے دنوں میں ، میں اسے سرسری طور پرجاننے لگا تھا ، لیکن مجھے کبھی بھی یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ ہمارے درمیان کچھ زیادہ چیزیں مشترک ہیں۔ بعد میں جب میں ایک مشہور ادیب اور وہ دنیا کا معروف ترین سیاست دان بن چکا تھا ، ہماری کئی بار ملاقات ہوئی مگر تب بھی باہمی احترام اور خیرسگالی کے باوجود میں نے محسوس نہیں کیاکہ اس تعلق میں سیاسی ہم آہنگی سے بڑھ کربھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔

چھ برس پہلے ایک روز صبح منہ اندھیرے اس نے مجھ سے اجازت چاہی ، کیوں کہ اسے گھر جاکربہت سا مطالعہ کرنا تھا ۔ اس نے کہا کہ اگر چہ یہ کام اسے لازماً کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اسے بیزارکن اور تھکا دینے والا کام لگتا ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ اس لازمی مطالعے کی تھکن دور castro3کرنے کے لیے وہ کوئی ایسی چیز پڑھا کرے جو ذرا ہلکی پھلکی ہو مگر اچھا ادب ہو۔ میں نے مثال کے طور پر چند کتابوں کے نام لیے، اور یہ جان کا حیران ہواکہ نہ صرف اس نے یہ تمام کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ ان پر اس کی بخوبی نگاہ تھی۔ اس رات مجھ پر اس بات کا انکشاف ہوا جس سے چند ہی لوگ واقف ہیں کہ فیڈل کاسترو بے حد پرجوش پڑھنے والا ہے ، کہ اسے ہر زمانے کے اچھے ادب سے محبت ہے ، اور یہ کہ وہ اس کا نہایت سنجیدہ ذوق رکھتا ہے۔دشوار ترین حالات میں بھی ، فرصت کے لمحات میں پڑھنے کے لیے اس کے پاس ایک عمدہ کتاب ضرور ہوتی ہے۔ اس شب رخصت ہوتے ہوئے میں نے اسے پڑھنے کے لیے ایک کتاب دی ۔

اگلے روز بارہ بجے جب میں اس سے دوبارہ ملا تو وہ اسے پڑھ چکا تھا ۔ وہ اس قدر محتاط اور باریک بیں قاری ہے کہ وہ نہایت غیر متوقع مقامات پر تضادات اور واقعاتی غلطیوں کی نشاندہی کردیتا ہے۔ میری کتاب ’’ایک غرقاب شدہ جہاز کے ملاح کی داستان ‘‘ پڑھنے کے بعد وہ صرف یہ بتانے کے لیے میرے ہوسٹل آیا کہ میں نے کشتی کی رفتار کا حساب لگانے میں غلطی کی تھی ، اور اس کے پہنچنے کا وقت ہرگز وہ نہیں ہوسکتا جو میں نے بیان کیا ہے۔ اس کی بات درست تھی۔ اس لیے ’’ایک پیش گفتہ موت کی روداد ‘‘ کو شائع کرانے سے پہلے میں مسودہ اس کے پاس لے گیا، اور اس نے شکاری رائفل کی خصوصیات کے بارے میں ایک غلطی کی نشاندہی کی ۔ لگتا ہے اسے ادب کی دنیا سے محبت ہے، یہاں اس کا جی لگتا ہے، اور اسے اپنی بے شمار تحریر شدہ تقریروں کے ادبی اسلوب پر محنت کرنے میں لطف آتا ہے۔ ایک موقعے پراس نے ، حسرت کے سے انداز میں مجھے بتایا،’’ اپنے اگلے جنم میں میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں۔ ‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے