جموں و کشمیر میں ہندو شرنارتھیوں کی باز آبادکاری

پچھلے کسی کالم میں راقم نے جموں و کشمیر کی جدید صحافت، انگریزی اخبار کشمیر ٹائمزکے بانی اور مورخ آنجہانی وید بھسین سے منسوب ایک واقعہ کا ذکر کیا تھا۔ اُنہوں نے ایک ملاقات میں 1947ء میںتقسیم ہند اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ وہ اور ان کے چند ساتھی سڑکوں پر کشت و خون سے دلبرداشتہ ہوگئے تھے اور اس کو روکنے کے لئے بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ مہاراجہ کے محل فریاد کرنے پہنچے۔ جہاں ان کو وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ ان کو سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناتے انہیں ریاستی اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوں کا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

بقول وید جی، اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ جب انہوں نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں۔ جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے۔ بقول وید جی، مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا۔گوکہ یہ بیل جموں کے ایک چھوٹے سے خطہ توی سے آگے نہیں بڑھ سکی، مگر حال ہی میں جس طرح اس علاقہ میں غریب اور بے کس مسلمانوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے، اور دوسری طرف مغربی پاکستان سے آئے ہندو مہاجرین کی باز آبادکاری میں سرعت دکھائی جارہی ہے، اندیشہ ہے کہ مہاجن کی روح شاید موجودہ حکمرانوں میں حلول کر گئی ہے۔

ابھی حال ہی میں بھارتی کابینہ نے ان 36 ہزار 384 مہاجر خاندانوں کی باز آبادکاری کیلئے 20ارب روپے کی خطیر رقم منظور کرکے اس احساس کو مزید تقویت بخشی۔ گو کہ اس فیصلہ سے وہ باضابطہ ریاستی شہریت کے حقدار نہیں ہونگے، مگر وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کے اس قدم سے ان کی حیثیت تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہو جائیگی۔ سری نگر اور دہلی کے درمیان یہ قضیہ پچھلے 60سالوں سے تصفیہ طلب ہے۔ گو کہ آزاد کشمیر سے آئے شرنارتھیوں(پناہ گزینوں) کی شہریت تسلیم کی گئی تھی، مگر جہلم ، دینا، سیالکوٹ اور دیگر پاکستانی علاقوں سے آئے مہاجرین کے بارے میں کشمیر کی حکومتوں کا موقف تھا، کہ انہیں جموں کے بجائے مشرقی پنجاب کے گورداسپور یا دیگر اضلاع میں بسایا جائے۔

جموں کشمیر کے ریاستی آئین کے پارٹ 3کی رو سے مارچ 1947ء تک ریاست میں غیر منقولہ جائیدادوں کے مالکان کی مستقل شہریت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ حق آزاد کشمیر کے کسی بھی علاقہ کے باشندہ کو بھی حاصل ہے۔ جموں کشمیر کا آئین دنیا کا واحد دستور ہوگا، جس میں کسی بھی صورت میں کوئی بھی اسمبلی کبھی ترمیم نہیں کرسکتی یہ پیش بندی اسلئے کی گئی ہے کہ اگر کسی وقت جمہوری طریقہ اختیار کرکے حریت یا اسی قبیل کا کوئی گروپ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو کہیں وہ آئین کے پارٹ2میں ترمیم کرکے بھارت کے ساتھ ریاست کا رشتہ تنسیخ کرکے کوئی آئینی بحران نہ کھڑا کردے۔ مگر چور دروازے سے ریاست خاص طور پر جموں خطہ کے فرقہ وارانہ تناسب کو درہم برہم کرنے کے سازشیں مسلسل کی جارہی ہیں۔

پچھلے سال سے جموں میں مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی ، سنجواں ، چھنی ،گول گجرال ، سدھرا ، ریکا ، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے ہٹانے کا سلسلہ جار ی ہے۔ یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت 1930ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔ دراصل جموں کا پورا نیا شہر ہی جنگلاتی اراضی پر قائم ہے اور صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو نشانہ بنانے کا مطلب مسلمانوںکو اس خطے سے بے دخل کرنا ہے، جہاں وہ پچھلے 60 برسوں سے حاشیہ پر چلے گئے ہیں۔

دوسری طرف جموں کے دیگر مسلم اکثریتی خطوں‘ چناب ویلی اور پیر پنچال میں ایک دہائی سے زائد سکیورٹی ایجنسیوں کی شہ پر ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (وی ڈی سی) نے اکثریتی طبقے کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ عسکریت سے نپٹنے کے لیے ان علاقوں میں سویلین افراد پر مشتمل فورس بنائی گئی، جو نہ سرکار کے تابع ہے اور نہ ہی کسی کو جوابدہ اور ان میں صرف ہندو اقلیتی افراد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ ان خطوں میں اس فورس کے ذریعے ، اغوا، تاوان، زیادتیوں کی وارداتیں عام ہیں، اور ظاہر ہے کہ خمیازہ مسلم آبادی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کے بارے میں عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کے تین خطوں کشمیر وادی ، لداخ اور جموں میں سے صرف ایک خطہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ تاہم 2011ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار اس غلط فہمی کو دور کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے تمام خطے لسانی اور ثقافتی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔مگر اسی طرح جموں خطہ انتظامی لحاظ سے ایک ڈویژن ہے لیکن وہ دراصل تین خطوں یعنی جموں (توی ریجن) ، پیر پنچال ، اور چناب وادی میں منقسم ہے۔ ان میں سے اول الذکر خطہ یعنی جموں میں ہندووں کی اکثریت ہے جبکہ دیگر دونوں خطوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ جموں کے پانچ اضلاع ۔ ادھم پور، سانبھا، ریاسی ، جموں اور کٹھوعہ ہیں۔ان اضلاع کی مجموعی آبادی 33لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس خطہ کے صرف ریاسی ضلع میں ہندو اور مسلمانوں کا تناسب تقریبا ً برابر ہے۔

ایک اور بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ جموں ڈویژن میں مسلم اکثریتی اضلاع کو بھی اسی کا حصہ سمجھا جاتا ہے جبکہ در حقیقت یہ اضلاع اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ پیر پنچال خطہ کے دو اضلا ع ہیں راجوری اور پونچھ ۔ ان دونوں میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہیں۔ ا ایک اور خطہ ہے چناب وادی جو دریائے چناب کے دامن میں بسا ہوا ہے اس خطہ کو بھی انتظامی اعتبار سے جموں ڈویژن کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کے تین اضلاع ہیں کشتواڑ، رام بن اور ڈودہ۔ یہ تینوں اضلاع مسلم اکثریتی اضلاع ہیں۔ لداخ خطہ کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ یہ بودھ اکثریتی علاقہ ہے ۔ جو حقیقت کے بالکل اُلٹ ہے۔

اس خطہ میں دوا ضلاع لیہ اور کرگل ہیں ۔ لیہ میں بودھ آبادی کا تناسب 66 فی صد ہے جبکہ مسلمانوں کا 14 فی صد۔ جبکہ کرگل مسلمان تقریبا 77فی صد اور بودھ 14فی صد ہیں ۔ اس ضلع کی آبادی لیہ کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ یعنی خطہ کی مجموعی آبادی دو لاکھ 74ہزار 289 میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 28ہزار ہے جبکہ بودھوں کی ایک لاکھ 8ہزار سے کچھ سے زیادہ ۔ تناسب کے اعتبار سے بودھ 39فی صد اور مسلمان 46فی صد سے زیادہ ہیں ۔

اس طرح مردم شماری کے یہ اعداد و شمار لداخ کے بودھ اکثریتی علاقہ ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ وادی کشمیر کے بارے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔یہاں مسلم آبادی کا تناسب 96.4فیصد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ 25لاکھ 41ہزار سے کچھ زیادہ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد تقریبا 86 لاکھ ہے جبکہ ہندووں کی 35لاکھ سے زیادہ اور سکھوں کی تقریبا ڈھائی لاکھ اور بودھوں کی ایک لاکھ سے کچھ زیادہ۔ ہندوئوں کی بعض جماعتیں جیسے پروفیسر بھیم سنگھ کی پینتھرس پارٹی کی طرف سے جموں کو الگ ریاست بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ مطالبہ سیاسی مایوسی کی پیداور ہے ۔ اگر جموں کو مذہبی اعتبار سے الگ کیا جاتا ہے اس کے تینوں خطوں کو بھی الگ الگ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ مذہبی پیمانے پر خطہ کی تقسیم کے معنی پیر پنچال اور وادی چناب کو مسلم اکثریتی ہونے کی بنا پر الگ کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں جموں ایک چھوٹے سے علاقہ میں سمٹ جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے