ایک تحیر آمیز واقعہ

پاکستان کے نئے آرمی چیف کی نامزدگی کے اہم دن تھے۔ وزیر ِاعظم نواز شریف، جن کا چہر ہ پڑھنا ناممکن، اور وہ تمام فیصلے اپنے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ رکھنے کےلئے مشہور، نے کسی کو اپنے انتخاب کی بھنک تک نہ پڑنے دی۔قیاس آرائیوں کی حدت بڑھ چکی تھی، لابنگ اور جذباتی اشتعال آخری درجے کو چھو رہا تھا، اندازوں کے جال بچھائے جاچکے تھے، اورفہرست میں شامل ناموں میں سے ایک کا تعین کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔ وزرا، فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کے افسران اوراپنی مدت پوری کرنے والے چیف کے پاس رائے دینے کاحق ہوتا ہے کہ اُن کی نظر میں اس اہم عہدے کے لئے سب سے موزوں شخص کون ہوگا۔

کچھ میڈیاآئوٹ لیٹس بھی امکانات کا دامن وسیع کرتے ہوئے ’’مناسب ترین امیدواروں ‘‘ کو شارٹ لسٹ کررہے تھے۔ اخبارت کی زینت بننے والی کچھ خبری کہانیاں اور مضامین اپنے تجزیے میں اتنے حتمی دکھائی دیتے تھے کہ اُنھوں نے بین السطور کو رسائی دینے یا اپنے جھکائو کو معروضی پیمانے پر جانچنے کی زحمت تک نہ کی۔ دیوانہ وار عقلی توجیہات پیش کرنے کے اُس موسم میں ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیاجو اپنے سیاق و سباق اور عزائم و مقاصد کے اعتبار سے نہ صرف قطعی بلکہ تحیر آمیز بھی تھا۔ حکومت کے سامنے ایک واضح اور دوٹوک پیغام کے ساتھ ایک ویڈیو رکھی گئی اور الفاظ کے ساتھ کھلواڑ کیے بغیر آرمی چیف کے عہدے کے لئے ایک امیدوار کے خاندان کے عقائد کے بارے میں ہنگامہ خیز غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ اس کے بعد حکومت کو یہ پیغام دیا گیا کہ اس افسر کو اس پوزیشن پر فائز کرنے کامطلب مذہبی طبقے کواپنے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا ہوگا۔

مخصوص مذہبی حلقوں کی جانب سے ٹویٹر پر بھی ایسا ہی تباہ کن پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا ہو گیا۔ اُس شخص کو اپنے الفاظ واپس لینے میں چھتیس گھنٹے لگ گئے، لیکن کچھ تشنہ سوال باقی رہ گئے۔ اس کے بعد بھی اس موضوع پر چند ایک مضامین اور قدرے محتاط لہجہ اپنائے ہوئے ایک دو ٹی وی پروگرامز دیکھنے کو ملے لیکن ایک صیحح العقیدہ مسلم خاندان پر کیچڑ اچھالنے کی مذموم کوشش دم توڑ گئی۔ یہ بات انتہائی حیران کن تھی۔ یہاں ملک کی مسلح افواج کے ایک سینئر ترین کمانڈر پر کیچڑ اچھالا جارہا تھا، لیکن کسی نے بھی پوری طاقت سے آگے بڑھ کر اُن کا بروقت دفاع کرنے کی زحمت نہ کی۔ کیا واٹس اپ ٹرولز، جو مقتدر ادارے کے نام نہاد محافظ بنے پھرتے ہیں، کے ضمیر پر کوئی بوجھ تھا؟ کسی نے بھی نعرہ بازی نہ کی، حالانکہ یہ ان کا شعار بن چکا ہے۔ سرکاری ٹویٹر اکائونٹ بھی ان کے حق میں گویا نہ ہوا، نہ ہی کیچڑ اچھالنے والے شخص کو سرکاری طور پر وارننگ دی گئی۔

فی الحال کسی حلقے نے ایک باوقار اور باصلاحیت افسر کے خلاف اسکینڈل بنانے والے شخص اوراس کے مقاصد کی تحقیقات کے لئے جو ڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ نہیں کیا۔ ہر طرف مہر سکوت دکھائی دی۔ دفاعی اداروں کے نام نہاد عاشقوں کی حیرت انگیز زبان بندی کا نادر مظاہرہ دیکھنے کو ملا،حالانکہ خامشی ان کا شعار کہاں۔ ایک ملک جس میں ’’ڈان لیکس‘‘ ایک قومی سطح کا اسکینڈل بن گئے تھے، اور جہاں مقتدر ادارے کے بعض امور پر خلوص ِ نیت سے کی گئی مثبت اور تعمیری تنقید کا بھی توہین آمیز ٹھٹھا اُڑایا جاتا تھا، اس موقع پر لب بندی محض اتفاق نہیں۔ ہو نہیں سکتا کہ آ پ کا گلا دبوچنے پر ہر آن مستعد اور تیار صحافیوں نے اس ویڈیو کو نہ دیکھا ہو۔ کیا ممکن ہے کہ سرکاری حلقے، جو مسلح افواج کے بارے میںلکھے اور بولے گئے ہر لفظ پر نظر رکھتے ہیں، ہر اختلافی آواز کو نوٹ کرتے ہیں، ہر فون کال سن سکتے ہیں،اس موضو ع پر بھیجا گیا ہر پیغام پڑھ لیتے ہیں، اس اشتعال انگیز جھوٹ کے پلندے سے بے خبر ہوں؟

اس کے باوجود اس برائی کی بیخ کنی کے لئے کچھ نہ کیا گیا(یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے کہ اس ویڈیو کے معاملے کوکس طرح سنبھالا گیا، گرچہ قدرے تاخیر کے ساتھ، لیکن یہ کہانی پھر سہی)۔ جس وقت آرمی چیف کی حتمی نامزدگی کا وقت قریب تھا تو ان نازک لمحات میں اُس ویڈیو کو گردش کرنے کا موقع دیا گیا۔ یہ کئی گھنٹو ں تک سامنے رہی،لیکن پھر ویڈیو میں ہرزہ سرائی کرنے والے شخص نے اپنا ایک اور ریکارڈ شدہ پیغام دیا کہ اُس کی سابق ’معلومات ‘ درست نہ تھیں، چنانچہ اُس نے ’یقین دہانی ‘ کرا دی ہے کہ جنرل صاحب کے خلاف الزامات درست نہ تھے۔ اس سطح پر تردید، بلکہ تصحیح سے پتہ چلتا ہے کہ جب ریاستی ادارے اپنی اتھارٹی کو استعمال کریں تو کیا کچھ نہیں کیا جاسکتا؟ لیکن پھر سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ایسا پہلے کیوں نہیں کیا گیا؟اس سے بھی اہم بات یہ کہ ایسی کھلی اور گھٹیا کردار کشی سے صرف اس لئے اغماض برت لیا گیا کہ اس کے بعد ایک اور ویڈیو پیغام آگیا تھا، حالانکہ اس میں نہ تو اُس شخص یا اُس کے خاندان کو پہنچنے والی اذیت پر معذرت کی گئی، نہ کوئی ندامت محسوس کی گئی۔

اس نکتے کی اہمیت سمجھنے کے لئے آپ ذرا ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ کوئی ٹی وی اینکر، یا صحافی، یا سیاستدان یا کوئی عام شہری مقتدر ادارے کے کسی افسر، چہ جائیکہ اعلیٰ ترین افسر، کے بارے میں کچھ دبے لفظوںسے بھی کہتا تو اُس کا کیا حشر ہوتا۔ اور تو اور، مقتدر ادارے کے نام نہاد عاشق ہی اُس کا جینا محال کردیتے۔

آج کے پاکستان میں رخصت ہونے والے آرمی چیف کے دور کا معروضی انداز میں ناقدانہ جائزہ لینا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ دومرتبہ آئین شکنی کا ارتکاب کرنے والے کے احتساب کی بات کرنا بھی بغاوت قرار پاتا ہے۔ تو پھر ایک اعلیٰ افسر کی اس طرح کردار کشی کرنے والے سے کوئی پوچھ گچھ کیوں نہیں؟کیا یہ ویڈیو کسی بھرپور منصوبہ بندی اور اسے بنانے اور پیش کرنے کی صلاحیت کے بغیر سامنے آسکتی تھی؟

کیا کوئی یہ نکتہ اٹھا رہا ہے کہ مقتدر ادارے کا ہر فرد ادارے کا نمائندہ ہے اور ’’ایک پر حملہ سب پر حملہ ‘‘تصور ہوتا ہے۔ تو پھر یہ اہم واقعہ اہم ترین قومی مفاد کا حامل ایشو کیوں نہ بن پایا؟کیا کوئی یہ جاننے میں دلچسپی رکھتاہے کہ کیا یہ ویڈیو کسی ایک امیدوار کے خلاف کی جانے والی لابنگ کا حصہ تھی اور اس کا مقصد اُس کی کردار کشی کرتے ہوئے اُسے راستے سے ہٹاناتھا؟کیا یہ خدشات بلاجواز ہیں؟ کیا انہیں دورکیے جانے کی ضرورت نہیں؟ لیکن یہ سوچنا بھی کم عقلی ہوگی کہ سوشل میڈیایا دیگر فورمز پر ان امور پر بحث ہوگی کیونکہ اس ’’پانی پت ‘‘ میں توصرف ناقدین کی ہی سرکوبی ہوتی ہے۔

جب تک نئے آرمی چیف، جو اس مہم کا ہدف تھے، خود نہ چاہیں، اس کی تفتیش کی توقع رکھنا بھی عبث ہے۔ لیکن موجودہ آرمی چیف اپنے کچھ پیش روئوں کے برعکس تنک مزاج اور زود رنج نہیں ہیں۔ قیاس ہے کہ یہ واقعہ تاریخ کی گرد میں گم ہوجائے گا۔ تاہم ایک ممکنہ آرمی چیف کی ذات پر اس طرح حملہ کرنا ہمیں باور کراتا ہے کہ فوج کے نام نہاد خیر خواہ کتنے کھوکھلے کردار کے مالک ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں جنرل پرویز مشرف کا دفاع کرتے ہوئے وہ ہر آن شمشیر بکف رہے، وہ شمشیر آج زنگ آلود ہو کر کسی مدفن میں کھوسی گئی۔

اہم بات یہ ہے کہ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں افواہ ساز ہی نہیں، کیچڑ اچھالنے والی فیکٹریاں بھی انتہائی فعال ہیں۔ ان کے موثر استعمال سے کسی بھی معاملے کو اہم یا غیر اہم بنایا جاسکتا ہے۔ سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے محاذ پر تعینات ایسے افراد کی موجودگی کہیں زیادہ سنگین گل کھلا سکتی ہے۔اس نیٹ ورک کو تحلیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ’’وسیع پیمانے پر کردار کشی کا ہتھیار‘‘ جتنی جلدی بے اثر کردیا جائے، اتناہی بہتر، ورنہ ان کے ہاتھ سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر اس نیٹ ورک نے ایک شیطانی تنازع کھڑا کردیا۔ اگر ان کی سرکوبی نہ کی گئی تو یہ قوم کی قسمت کو اپنے ہاتھوں میں یرغمال بنا لیں گے۔

بشکریہ : روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے