ربیع الاوّل میں ہی ڈاکٹر عبدالسلام کے لیے یہ نوازش کیوں؟

محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے گزشتہ روز بات ہوئی تو انہوں نے مرحوم صحافی زاہد ملک کی کتاب ’’ڈاکٹر عبدالقدید اور اسلامی بم‘‘ میں ڈاکٹر عبدالسلام کے متعلق واقعہ کی تصدیق کرتے ہوے بتایا کہ اُس وقت کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کے لیے بنائی گئے کوآرڈنیشن بورڈ کو یہ واقعہ خود سنایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اُس وقت بورڈ میٹنگ میں اُن سمیت اے جی این قاضی، آغا شاہی اور غلام اسحاق خان موجود تھے۔

ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جو کچھ انکشاف صاحبزادہ یعقوب خان نے کیا وہ بورڈ میٹنگ کے منٹس میں بھی ریکارڈ کیا گیا۔ اس واقعہ کو زاہد ملک صاحب نے اپنی کتاب میں صاحبزادہ یعقوب خان کے حوالے سے کچھ یوں لکھا:’’اپنے ایک امریکی دورے کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں، میں بعض اعلیٰ امریکی افسران سے باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کر رہا تھا کہ دوران گفتگو امریکیوں نے حسب معمول پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر شروع کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے اس کے حوالے سے اپنی پیش رفت فوری بند نہ کی تو امریکی انتظامیہ کے لیے پاکستان کی امداد جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ایک سینئر یہودی افسر نے کہا ’’نہ صرف یہ بلکہ پاکستان کو اس کے سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

جب ان کی گرم سرد باتیں سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ کا یہ تاثر غلط ہے کہ پاکستان ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ کسی اور قسم کے ایٹمی پروگرام میں دلچسپی رکھتا ہے تو سی آئی اے کے ایک افسر نے جو اسی اجلاس امیں موجود تھا، کہا کہ آپ ہمارے دعویٰ کو نہیں جھٹلا سکتے۔ ہمارے پاس آپ کے ایٹمی پروگرام کی تمام تر تفصیلات موجود ہیں بلکہ آپ کے اسلامی بم کا ماڈل بھی موجود ہے۔

یہ کہہ کر سی آئی اے کے افسر نے قدرے غصے بلکہ ناقابل برداشت بدتمیزی کے انداز میں کہا کہ آئیے میرے ساتھ میں آپ کو بتائوں گا کہ اسلامی بم کیا ہے؟ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور دوسرے امریکی افسر بھی اٹھ بیٹھے۔ میں بھی اُٹھ بیٹھا۔ ہم سب اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سی آئی اے کا یہ افسر ہمیں دوسرے کمرے میں کیوں لے جا رہا ہے اور وہاں جا کر یہ کیا کرنے والا ہے۔ اتنے میں ہم سب ایک ملحقہ کمرے میں داخل ہو گئے۔ سی آئی اے کا افسر تیزی سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ کمرے کے آخر میں جا کر اس نے بڑے غصہ کے عالم میں اپنے ہاتھ سے ایک پردہ کو سرکایا تو سامنے میز پر کہوٹہ ایٹمی پلانٹ کا ماڈل رکھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری طرف ایک اسٹینڈ پر فٹ بال نما کوئی گول سے چیز رکھی ہوئی تھی۔سی آئی اے افسر نے کہا ’’یہ ہے آپ کا اسلامی بم۔ اب بولو تم کیا کہتے ہو۔ کیا اب بھی تم اسلامی بم کی موجودگی سے انکار کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا میں فنی اور تکنیکی امور سے نابلد ہوں۔ میں یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ یہ فٹ بال قسم کا گولا کیا چیز ہے اور یہ کس چیز کا ماڈل ہے۔ لیکن آپ لوگ بضد ہیں کہ یہ اسلامی بم ہے تو ہو گا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سی آئی اے افسر نے کہا کہ آپ لوگ تردید نہیں کر سکتے ہماری پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ آج کی میٹنگ ختم کی جاتی ہے۔

یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر کی طرف نکل گئے اور ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئے۔ میرا سر چکرا رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ جب ہم کوریڈور سے ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے تو میں نے غیر ارادی طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی ایک دوسرے کمرے سے نکل کر اس کمرے میں داخل ہو رہے ہیں، جس میں بقول سی آئی اے کے اسلامی بم کا ماڈل پڑا ہوا تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا، اچھا! تو یہ بات ہے۔‘‘

اسی کتاب میں زاہد ملک مرحوم مولانا کوثر نیازی کی ایک تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی سائنسدانوں کی ملتان کانفرنس میں ڈاکٹر عبدالسلام نے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی مخالفت کی تھی اور وہ اس معاملہ میں بھٹو صاحب کے اضطراب سے اس قدر پریشان ہوئے کہ ناراض ہو کر لندن چلے گئے تھے۔ بھٹو کو بقول خالد حسن، اس خوف کے پیش نظر کہ ڈاکٹر عبدالسلام کہیں سارے راز ہی بے نقاب نہ کردیں، ڈاکٹر عبدالسلام کے ایک قریبی دوست اور عزیز شاگرد کو ان کے پیچھے بھیجنا پڑا تھا کہ وہ انہیں یقین دلائے کہ ملتان کانفرنس محض ایک سیاسی ڈرامہ تھا اور مسٹر بھٹو کو اس معاملہ میں پاکستان کے محدود وسائل اور بے بضاعتی کا پورا احساس ہے۔

جب ذوالفقار علی بھٹو نے آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تو احتجاجاً ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان چھوڑ کر انگلستان منتقل ہو گئے۔ پاکستان چھوڑنے کے بعد 1979 میں انہیں نوبل ایوارڈ دیا گیا۔ محمد متین خالد صاحب کی ایک تصنیف کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیئے جانے کے فیصلہ کے کچھ عرصہ بعد بھٹو صاحب کے دور میں ہی ایک سائنس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی مدعو کیا گیا۔ دعوت نامہ جب ڈاکٹر عبدالسلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے کارڈ پر مندرجہ ذیل ریمارکس لکھ کر وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو واپس بھیج دیا: "I do not want to set foot on this accursed land untill the Constitutional amendment is withdrawn.”

جناب بھٹو صاحب نے جب یہ ریمارکس پڑھے تو غصے سے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور انہوں نے اسی وقت سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو ڈاکٹر عبدالسلام کو وزیر اعظم کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے برطرف کرنے کا حکم دیا جس پر عمل تو ہوا لیکن وہ دستاویز ریکارڈ میں موجود نہیں۔ شاید ذوالفقار علی بھٹو کا یہی غصہ تھا جس کوبے نظیر بھٹو 1989میں بھی نہ بھولیں جب اپنی وزارت اعظمیٰ کے دوران ڈاکٹر عبدالسلام اُن سے ملنا چاہتے تھے اور اس کے لیے وہ دو دن اسلام آباد میں انتظار کرتے رہے لیکن بے نظیر بھٹو شہید نے کہلا بھیجا اُن کے پاس ملنے کے لیے وقت نہیں ہے۔

آج بہت سوں کو حیرت ہوئی کہ ہمارے وزیر اعظم نواز شریف نے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کا نام عبدالسلام سینٹر آ ف فزکس رکھنے کی منظوری دے دی۔ یہ فیصلہ کتنا متنازع ہے اور کیوں اس بحث اپنی جگہ لیکن اس کے اعلان کے لیے ربیع الاوّل کے مہینے کو ہی کیوں چنا گیا یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

بشکریہ:روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے