ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

ہر شخص یہاں مذاق پر تلا ہوا ہے، جسے دیکھو مذاق کیے جاتا ہے۔ اب دیکھئے ناں، ہمارے کتنے سنجیدہ سیاستدان ہیں سید خورشید شاہ۔۔ ان سے تو مذاق کی کوئی امید نہیں تھی لیکن وہ بھی ہمارے ساتھ مذاق کرنے پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں حکومت ملنے پر نوے روز میں کرپشن ختم کر دیں گے۔
اس پر خورشید شاہ صاحب کو بہترین لطیفہ کا ایوارڈ تو دینا چاہئے۔ کتنی اچھی بات کی ہے۔۔ بالکل اس طرح جیسے کسی ایک دوست نے کہا میں سگریٹ اس لیے زیادہ پیتا ہوں کہ پی پی کے اس برائی کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح لگتا ہے شاہ جی نے بھی سوچ لیا ہے کہ وہ کرپشن اتنی کریں گے کہ ختم ہو جائے گی۔

اب اس پر کیا تبصرے کیے جا سکتے ہیں۔ یعنی آپ اگر یہ اعلان فلپائن جا کے کرتے تو شاید وہاں لوگ اس لطیفہ کو سمجھ نہ پاتے لیکن یہاں سب لوگ تو اس سیاست کو سمجھ گئے ہیں اسی لیے تو جب بلاول کہتا ہے میں آئندہ وزیر اعظم بنوں گا اور زرداری صاحب پھر صدر بنیں گے تو یہ سوچ کر ہی مجھ ایسے لوگوں کی تو چیخیں ہی نکل جاتی ہیں۔

ہمارے لیے تو یہ خواب ہی ڈراؤنا ہے جب پھر سے اس ملک میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر حکومت ہو گی کیونکہ جب بھی ایسا نعرہ لگا ہے یہ تینوں چیزیں دسترس سے باہر ہوتی رہی ہیں۔ دل میں خیال آتا ہے وہ ہی ہونے والا ہے جب پھر پی آئی اے ، ریلوے، سٹیل ملز سمیت مختلف اداروں میں ہزاروں افراد کو بنا ضرورت بھرتی کر لیا جائے گا۔ نقصان پورا کرنے کے لیے عوام کو ملنے والے مختلف ریلیف ختم ہوتے جائیں اور اشیائے خورد و نوش کے دام بڑھتے جائیں گے۔

بیرونی قرضے بھی لیے جائیں گے مگر کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوں گے۔ ایان علی ہی نہیں مزید کئی ماڈلز سامنے آئیں گی، اگر وزارت پٹرولیم میں مال ہوا تو ڈاکٹر عاصم حسین پھراسی وزارت میں نہیں تو کسی اور وزارت میں ہوں گے۔

راجہ پرویز اشرف نے وزارت پانی و بجلی سے تو توبہ کی ہے لیکن کسی کے نااہل ہونے پر وزیر اعظم بننے کے لیے وہ ابھی بھی تیارہیں، کہتے ہیں اس مرتبہ بھی مجھے وزارت عظمیٰ سونپی گئی تو میں ثابت کروں گا میں گوجر خان کا عظیم سپوت ہوں اور ملک بھر کے تمام تر ترقیاتی فنڈز یہاں اپنے علاقہ میں ہی خرچ کر سکتا ہوں بشرطیکہ میں الیکشن جیت سکوں، اگر الیکشن نہ جیت سکا تو سینیٹر بنوانا تو پارٹی کا کام ہے۔

میں تو یہ سوچ کر خوش ہوں کہ بلاول نے کہا ہے سندھ میں وزیر اعلیٰ بھی ہمارا ہوگا اور صدر بھی۔۔ یعنی آئندہ سے صدر کا عہدہ بھی چاروں صوبوں میں ہوگا اس سے صوبائی خودمختاری کا احساس پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔

دوسری جانب بلاول کی یہ تیاریاں دیکھ کر شرجیل میمن نے بھی وطن واپسی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں، معلوم ہوا ہے وہ لندن میں پی ٹی آئی کے یوتھیوں سے بہت تنگ آئے ہوئے ہیں کیونکہ جونہی وہ اپنا غم غلط کرنے کسی گورے قسم کے میکدے میں جاتے ہیں وہاں کوئی نہ کوئی اپنا موبائل فون لے کر غلط سلط انگریزی میں ٹھیک ٹھاک بہترین قسم کی ننگی ننگی گالیاں دے دیتا ہے ،نہ صرف گالیاں دیتا ہے بلکہ اس کی وڈیو بھی بنا لیتا ہے۔ شرجیل میمن کو اسی باعث جدید ٹیکنالوجی سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔ انہوں نے تہیہ کیا ہے کہ اقتدار میں آتے ہی کیمرہ والے اینڈرائڈموبائل فون عام آدمی کے خریدنے پر پابندی لگا دیں گے۔

کیا معلوم کوئی یہاں پاکستان پہنچ کر پنجابی، سندھی یا اردو زبان میں یہ گندی گالیاں نہ دے دے، ابھی تو گالیاں انگریزی میں ہونے کے باعث کم لوگوں کو معلوم ہوا ہے انہیں کن کن القابات سے نوازا گیا ہے۔ یہی گالیاں اگر اردو، پنجابی یا سندھی میں ہوئیں تو نئی والی وڈیو، اس پرانی وڈیو سے بھی زیادہ وائرل ہو جائے گی۔

دوسری جانب مظفر ٹپی نے بھی پرانا قلعہ سے چھریاں تیز کروا لی ہیں کہتے ہیں مفت میں کافی عرصہ سے فارغ رہنا پڑا ہے جس کے باعث بہت نقصان ہوا ہے، ہمارے سدا بہار نوجوان وزیر اعلیٰ (سابق) سندھ سید قائم علی شاہ بہت پریشان رہتے تھے کیونکہ ٹپی صاحب جب بھی آتے تھے ڈھیر ساری فائلیں لے کر آتے تھے اور پھر شاہ جی کو سانس بھی مشکل سے لینے کی اجازت ملتی تھی، بس ہر فائل پہ پڑھے بغیر دستخط کرنے پڑتے تھے۔ ایسی صورتحال میں شاہ جی کہا کرتے تھے بھائی میرے دستخط کی مہر بنوا کر اپنے ہی گھر رکھ لیں مجھے زحمت نہ دیا کریں ۔۔ جس پر ٹپی بھائی کہتے ابھی تو آپ نوجوان ہیں کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ بس یہی بات قائم علی شاہ صاحب کے لیے آکسیجن کا کام کرتی اور وہ پھر سے نوجوانوں کی طرح دستخط کرنا شروع کر دیتے ۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کرپشن کے خاتمہ کے خورشید شاہ کے اعلان پر زرداری صاحب بہت ناراض ہوئے کہنے لگے ہمارے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہے ہو، اس پر شاہ جی نے فوراً بتایا وہ صرف ایک سیاسی بیان تھا ورنہ اپنے پیٹ پر پتھر کون باندھتا ہے؟ جس پر زرداری صاحب بولے زرداری خوش ہوا۔ بلاول بھٹو نے بھی وزیر اعظم بننے کی یہ خوشخبری قوم کو سنانے کے بعد فیشن ڈیزائنر کو شیروانی کا آرڈر دے دیا ہے۔

مجھے تو سوچ کر ہی بہت مزا آ رہا ہے کیا کمبی نیشن ہو گا، بلاول وزیر اعظم ، زرداری صدر مملکت۔۔ مظفر ٹپی ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ سندھ۔۔ سبحان اللہ۔۔ منظور وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے ۔سارے محکمہ ایک طرف لیکن اس مرتبہ وزیر داخلہ کے منصب پر ایان علی ہوں گی کیونکہ جمہوریت کے لیے انہوں نے بہت قربانی دی ہے،اتنی قربانی پر وزارت داخلہ تو بنتی ہے۔ ایسی ہی قربانیوں پر رحمان ملک کو بھی وزارت داخلہ ملی تھی لیکن اس مرتبہ ان کے شوق کو دیکھتے ہوئے انہیں وزارت ثقافت کا قلمدان دیئے جانے کا امکان ہے۔اگر جے یو آئی فضل الرحمان حکومت کا حصہ نہ ہوئی تو ہاؤسنگ کی وزارت ملے گی مصطفی نواز کھوکھرکو ۔۔ پھر اسلام آباد کے بچے کچھے دیہی علاقوں پر بھی بحریہ کے منصوبے بنیں گے۔

اصلی بھٹو یعنی بلاول بھٹو زرداری کی ایک حالیہ تقریر سے جو سرخی نکلی ہے وہ کچھ یوں ہے : 2018 میں کوئی بھی شریف کہلانے والا ملک پر راج نہیں کرے گا، بلاول بھٹو۔۔ یعنی جو بھی حکومت میں آئے گا وہ شریف نہیں ہو گا۔ ظاہر ہے صاحب آپ کے آنے کے بعد شرافت کی رخصتی تو یقینی ہے۔اس تقریر سے بلاول کے عزائم عیاں ہو گئے ہیں ۔۔ وہ شریفوں سے اتنا تنگ آ گئے ہیں کہ کہتے ہیں اب ہمیں دوبارہ آپ کی شکل نہیں دیکھنی۔۔ کچھ عرصہ کی بات ہے ہماری یادداشت تو ویسے ہی کمزور ہے ، ہم بھول جائیں گے اور بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی پھر رائے ونڈ محل میں یا بحریہ لاہور کے بلاول پیلس میں پھر ملیں گے ۔ کچھ لوگ انکلز کے احترام کرنے کے اپنے عزم پر کاربند رہنے کا اعلان بھی کریں گے اور میثاق جمہوریت کو قائم رکھنے پر اتفاق بھی ہو گا۔پھر راج کرے گی خلق خدا۔۔۔ اور یاد رہے خلق خدا کا مطلب صرف اور صرف سیاستدان ہے کوئی غلط نتیجہ اخذ نہ کرے۔

پتا نہیں کیوں اس پر مجھے یا د آ گیا ۔ ایک گھر میں ڈاکو داخل ہوئے اور سب کچھ لوٹ لیا، جب وہ گھر میں بچ جانے والی جائے نماز اٹھانے لگے تو صاحب خانہ بولے "گھر کا سارا سامان لوٹ کر لے جا رہے ہو۔یہ جائے نماز تو رہنے دو اس پر میں نماز پڑھتا ہوں۔ڈاکو نے تاسف بھرے لہجہ میں کہا : کیا میں مسلمان نہیں ؟کیا میں نماز نہیں پڑھتا، صرف تم نماز پڑھتے ہو؟

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اب کی بار ہماری جائے نماز بھی نہ بچ پائے گی یعنی بقول شاعر ۔ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے