گوئٹے کانغمۂ محمدﷺ

گوئٹے کے اڑھائی صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات کا خیال کرتا ہوں تو مجھے کارل فان اوسیٹسکی کا ایک قول بے ساختہ یاد آ جاتا ہے۔ وائمیر ری پبلک میں گوئٹے کی کھوکھلی اور منافقانہ حمد و ثنا پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے لکھا تھا کہ:

’’جرمنی میں گوئٹے کا یوم سرکاری طور پر یوں منایا جاتا ہے جیسے وہ ایک شاعر اور پیغمبر نہ ہو بلکہ فقط افیون ہو‘‘۔(۱)

یہ کچھ وائمیر ری پبلک پر ہی موقوف نہیں بلکہ گوئٹے کے دورِ حیات سے لے کر آج تک نہ صرف جرمنی بلکہ ساری کی ساری مغربی دنیا میں گوئٹے کی اسلام شناسی اور مسلمان دوستی کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جا رہا۔اگر گوئٹے کے وسیع النظر اور انسان دوست روحانی مسلک پر عمل کیا جاتا تو نہ کل جرمن قوم یہودیوں کی نسل کشی کے انسانیت سوز جرائم میں ملوث ہوتی اور نہ آج عصر رواں کا نامور ترین تخلیقی فن کار گُنتر گر اس برلن میں جرمنی کے ایک سو سے اوپر تخلیقی فن کاروں کا جلوس لے کر سلمان رشدی کی حمایت میں نعرہ زنی میں مصروف پایا جاتا۔

واقعہ یہ ہے کہ مغربی دنیا آج بھی گوئٹے کی اسلام اور مسلمانوں سے محبت کا راز سمجھنے پر آمادہ نہیں ہے۔اس کے برعکس دانتے اور والٹیر کے دیوانگی کی حدود کو چھوتے ہوئے مذہبی تعصب کو مزید ہوا دینے میں مصروف ہے۔اسلام سے نفرت اور مسلمانوں سے حقارت کی اس فضا میں گوئٹے کے اڑھائی سو سالہ جشنِ ولادت نے مغربی دنیا کو ایک نادر موقع مہیا کیا ہے کہ وہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام سے متعلق اپنی نفسیاتی بیماریوں کے لیے ایک نسخۂ شفا ڈھونڈے۔ خود گوئٹے

گوئٹے
گوئٹے

بھی اپنے عہد کی بیماریوں کے لیے نسخۂ شفاکی تلاش میں ہی اسلامی مشرق کو روحانی ہجرت پر مجبور ہوا تھا۔ ڈاکٹر آرتھرریمی اپنی کتاب ’’جرمن شاعری پر ایران اور ہندوستان کے اثرات‘ ‘ میں بتاتے ہیں کہ:

’’ ہندوستان کی دیو مالا،ہندوستان کے مذہب اور اس کی دور از کار فلسفیانہ موشگافیوں سے گوئٹے کو کراہت محسوس ہوتی تھی۔ خصوصیت کے ساتھ دیومالائی جنات کو وہ حقارت بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا۔۔۔۔۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ گوئٹے کا مشرق سندھ، ایران، دنیائے عرب اور ترکی تک محدود تھا۔‘‘(۲)

ہندو مت اور ہندو مالتھالوجی سے گوئٹے کی بیزاری کا راز اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ ملت ابراہیمی یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں بنیادی روحانی یگانگت پر غور و فکر میں صرف کیا تھا۔ آغازِ شباب ہی میں گوئٹے نے یہودیت، عیسائیت اور اسلام پر تین سلسلہ وار ڈرامے تخلیق کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسلام کے موضوع پر اپنے مجوزہ ڈراما میں گوئٹے نے آنحضورﷺ کی سیرت و کردار کو مرکزی حیثیت دینے کا ارادہ کیا تھا۔ اپنی خود نوشت بعنوان ’’شاعری اور صداقت‘‘ میں گوئٹے نے دو صفحات پر پھیلے ہوئے ایک بیانیہ میں اس تمثیل کی تمنا کی صورت گری کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’میرے دل میں یہ خیال تقویت پکڑتا گیا کہ محمدﷺ کی حیات طیبہ پر لکھوں جنہیں میں نے ہمیشہ صادق پایا اور جن کے نکتہ چینوں کو میں نے ہمیشہ گمراہ سمجھا۔جب یہ خیال میرے دل میں آیا تو میں اس کام کے لیے بخوبی تیارتھا کیونکہ میں اس سے پیشتر آنحضورﷺ کی حیات و کردار کا بنظرِ غائر مطالعہ کرچکا تھا۔ یہ تحریر ایک مناجات سے شروع ہوتی ہے۔‘‘ (۳)

اس کے بعد گوئٹے عرب جاہلیت کے خلاف آنحضورﷺ کے جہاد کے آغاز سے لے کر واقعہ معراج تک اسلام کی سرگزشت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ذہن اس احساس سے سرشار ہے کہ اسے اوپر ہی اوپر، اور بھی اوپر پرواز کرتے چلے جانا ہے۔ اسے ھوالاوّل، ھوالآخر، ھوالظاہر ، ھوالباطن تک پہنچتا ہے۔ اسے اس ہستی مطلق کے حریم تک پہنچنا ہے، تمام مخلوقات کی زندگی جس کے طلسم کُن سے عبارت ہے۔ میں نے یہ مناجات ایک عجب گرمئِ احساس کے ساتھ لکھی تھی۔ ہرچند یہ گم ہو چکی ہے مگر آسانی کے ساتھ اس کی بازیافت ممکن ہے۔ یہ اظہار و بیان کے تنوعات کے ساتھ گائی جا سکے گی۔ گاتے وقت وہ تصور پیش نظررکھنا ضروری ہوگا جو اس حمدیہ گیت کے تخلیقی عمل میں کارفرما تھا۔ یہ ایک قافلہ سالار کا تصور تھاجو اپنے خاندان، اپنے قبیلہ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔آوازوں کا زیروبم اور کورس کی مختلف شکلوں کا خاص اہتمام کیا جائے گا۔ دکھایا جائے گا کہ بعثت کے فوراً بعد محمدﷺ نے اپنے فکر و احساس سے اپنے خاندان کو آگاہ کیا۔ آپ کی زوجہ محترمہؓ اور حضرت علیؓ سب سے پہلے خود اپنے قبیلہ کو مشرف بہ اسلام کرنے میں کوشاں ہیں۔ اس باب میں اتفاق اور عناد، حمایت اور مخالفت اپنے اپنے ظرف کے ساتھ متصادم ہیں۔ جدوجہد زور پکڑتی ہے ۔ فکری معرکہ، تشدد اور خون خرابے کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے اور بالآخر ہجرت کا وقت آ پہنچتا ہے۔ تیسرے باب میں فتح و نصرت کا سماں، اللہ کے دشمنوں پر غلبہ، کعبہ کو بتوں سے پاک کر کے اللہ کے دین کی سربلندی کے مناظر پیش کیے جائیں گے۔‘‘(۴)

قرآن کریم اور آنحضورﷺ کے اسوۂ حسنہ کے گہرے مطالعہ اور بیشتر فنی سازو سامان جمع کر لینے کے باوجود گوئٹے اس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دینے کی روداد یوں بیان کرتے ہیں:

’’ایک صاحب کردار اور دانش مند ہستی پر ایک ابدی پیغام کے اثرات اور اس کے جذبہ و عمل، اس کے سودوزیاں کا رزمیہ پیش کرنا مقصود تھا۔۔۔متعدد نغمات پہلے ہی تیار کر دیئے گئے تھے تاکہ موقع و محل کی مناسبت سے استعمال کیے جا سکیں مگر افسوس کہ اس متاع گم گشتہ میں سے فقط ایک چیز باقی رہ گئی ہے جو میرے مجموعۂ کلام میں ’’نغمۂ محمدﷺ‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔(۵)

دنیا بھر کے نعتیہ کلام میں اپنا ثانی نہ رکھنے والا یہ ’’نغمۂ محمدﷺ‘‘ بعد میں گوئٹے نے اپنے West Ostilcher Diwan میں شامل کر دیا تھا اور بعدازاں اسے علامہ اقبال نے ’’جوئے آب‘‘ کے عنوان سے فارسی کا خوبصورت پیرہن بخش دیا تھا۔ گوئٹے نے اپنے دیوان کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اور دیوان کے سرورق پر الدیوان الشرقی للمولف الغربی کی جس خوبصورت انداز میں خطاطی کی ہے اس سے عاشقانہ محنت کا راز بھی کھلتا ہے۔ ادھیڑ عمر میں جب وہ جواں سال شاعرہ ماریانا کی محبت میں مبتلا ہوئے تووہ بے خیالی میں کبھی ریت میں اور کبھی کاغذ پر اس کا نام عربی حروف میں لکھتے رہتے تھے۔ یہی عرصۂِ محبت ان کے دیوان مشرقی کی تخلیق کا زمانہ ہے۔

اسلامی مشرق میں تخلیقی دلچسپی گوئٹے کے عنفوان شباب کا قصہ ہے۔ اکیس برس کی عمر میں جب وہ قانون کی اعلیٰ تعلیم کے لیے سڑاسبرگ گئے تو وہاں اپنے وقت میں جرمن ادبیات کی ممتاز ترین شخصیت ہرڈر کے زیرِاثر اسلامی مشرق نے ان کے دل و دماغ کو اپنی جانب کھینچنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ یہی کشش ہندوستان کے مغرب میں پھیلی ہوئی دُنیائے اسلام کے ساتھ ان کی اٹوٹ تخلیقی رفاقت کی صورت اختیار کر گئی۔ ہرڈر اٹھارہویں صدی کی جرمنی کا سب سے بڑا ماہر دینیات بھی تھا۔ اس کے زیرِ اثر گوئٹے صحائف آسمانی کے شاعرانہ حسن کی جانب متوجہ ہوا اور پھر رفتہ رفتہ صحفِ ابراہیم و موسیٰ سے ہوتا ہوا قرآن حکیم تک آ پہنچا تھا۔ یہاں پہنچتے ہی وہ پکار اُٹھاتھا:

’’اگر اسلام کا مطلب رضائے الٰہی کی اطاعت ہے تو ہم سب اسلام میں ہی جیتے ہیں اور اسلام ہی میں مرتے ہیں۔‘‘

اپنے ’’دیوانِ مشرقی‘‘ کی تفسیر و تعبیر کرتے ہوئے گوئٹے نے قرآن حکیم کی حقانیت کے اثبات میں لکھا کہ:

’’توحید، عبدیت اوررسالت۔۔۔۔۔۔یہ تمام قرآنی تصورات، اپنے اپنے دینی عقائد سے گہری مماثلت رکھتے ہیں اور ہماری مقدس کتابیں ہی بڑی حد تک مسلمانوں کی مقد س کتابوں کا ماخذ ہیں۔ اساسی معاملات میں ہمارے اور ان کے عقائد اور ہمارا اور ان کا طرزِ فکر یکساں ہے۔‘‘

ملت ابراہیمی کی ساخت پرداخت اور نشووارتقاء سے اس گہری شناسائی کی بدولت گوئٹے مسلمانوں کے ادبیات و فنون سے محبت میں مبتلا ہو گیا۔ گوئٹے نے پینسٹھ برس کی عمر میں ہائیڈل برگ کی نوخیز شاعرہ ماریا نافان ولمر کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی۔ اپنے دیوان میں ’’زلیخانامہ‘‘ کے زیرِعنوان اس داستان محبت کے احوال و مقامات کی پردہ کشائی کرتے وقت اس نے خود کو حاتم کہا اوراپنی نظموں کے ساتھ ساتھ ماریانا کی نظمیں بھی دیوان میں شامل کیں۔ یہ دیوان مسلمانوں کی عشقیہ شاعری سے تخلیقی اکتساب کی درخشندہ مثال ہے۔

گوئٹے نے آنحضورﷺ کو ایک رواں دواں اور ابدیت بہ کنار جوئے آب سے تشبیہ دی ہے۔ ’’نغمۂ محمدﷺ کا آخری بند یہ ہے:

دریائے پر خروش ز بند و شکن گزشت
از تنگنائے وادی و کوہ و دمن گزشت
یکساں چو سیل کردہ نشیب و فراز را
او کاخ شاہ و پارہ و کشت و چمن گزشت
بیتاب و تندوتیز و جگرسوز و بیقرار
در ہر زمان تازہ رسید او کہن گزشت
زی بحر بیکرانہ چہ مستانہ می رود
در خود یگانہ از ہمہ بیگانہ می رود (ترجمہ از علامہ اقبال)

پیغمبرِ اسلام سے یہ گہری عقیدت اور جبلی محبت اور اسلام کی انقلابی روح سے یہ جذباتی لگاؤ مغربی ادب میں اور کہیں نہیں ملتا۔ اقبال نے گوئٹے (۱۷۴۹ء تا ۱۸۳ء) کے ہم عصر غالب کو مخاطب کر کے کہا تھا:

ع گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نفس خوابیدہ ہے

گوئٹے واقعتا اپنے ہم عصر مسلمان شاعروں کا ہم نفس تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس کی اسلام شناسی دنیائے مغرب کے لیے ہنوز پردوں میں چُھپی ہوئی ہے۔
آج سیمیوئل ہنٹنگٹن (The Clash of Civilizations)کے سے سامراجی نظریہ ساز جب اسلامی تہذیب اور عیسوی تہذیب کے مابین تصادم اور ستیز کا رزمیہ گیت چھیڑتے ہیں اور مغربی دنیا کو دنیائے اسلام کے خلاف صف آر ہونے کی تلقین کرتے ہیں تو گوئٹے کا نغمۂ عشق رہ رہ کر میرے کانوں میں رس گھولنے لگتا ہے اور میں سوچنے لگتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب مغربی دنیا ’’مغنی نامہ‘‘، ’’زلیخا نامہ‘‘ اور ’’بندگی نامہ‘‘ کی سی عہد آفریں نظموں کے خالق گوئٹے کو افیون کی مانند استعمال کرنا ترک کرنے کی بجائے آبِ حیات سمجھ کر انسانیت کی کھیتی کوسرسبز و شاداب کرنا شروع کر دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ جب وہ وقت آئے گا تو اسلامی اور مغربی دنیائیں باہم متصادم ہونے کی بجائے شیروشکر ہو جائیں گی اور اللہ کا یہ پیغام ہر سو گونجنے لگے گا:

’’اے اہلِ کتاب! آؤ ہم تم اس کلمہ توحید پر متحد ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔‘‘

***
حواشی
(1) "Official Germany celebrates Goethe not as poet and prophet but above all as opium” (Karl von Ossietzky as quoted by Peter Gray 1968 in Weimer Culture)

(2) The influence of India and Persia on the poetry of Germany (Newyork) 1966, Pp.20-21
"For India’s mythology, its religion, its abstrusest of philosophies he felt nothing but aversion. Especially hateful to him were the mythological monstrosities……..After all. Goethe’s Orient did not extend beyond Indus It was confined mainly to Persia and Arabia, with and occasional excursion into Turkey.”

(3) "There developed with in me the plan of representing in the life of Mahomet whom I have never been able to regard as an imposter those courses which were so clearly seen by me in actual life, which lead much more to ruin than to salvation. A short time before I had studied with great interest the life of the oriental prophet, so when the thought came to me I was fairly well prepared. The piece begins with a hymn which Muhammad sings alone under the clear sky of night”….

(4) The mind feels it must yet rise above itself; it rises to God the only One, the Eternal, the Absolute to whom all these splendid but limited creatures owe their existence I composed this hymn with great warmth of feeling it is lost, but might easily be restored for the purpose of a cantata, and would recommended itslef to the musician by the variety of its expression. But it would be necessary to imagine, as at that timewas the intention, the leader of a caravan with his family and a whole tribe, and so for the alteration of the voices and the strength of the choruses provision would be made. After Mahomet has thus convereted himself and communicated these feelings and thoughts to his family. His wife and Ali join him unreservedly. In the second act he himself endeavours, but Ali more vigorously, to extend this faith in the tribe. Here agreement and opposition show themselves according to the difference of character. The feud begins the strife becomes violent and Mahomet must fly in the third act he overcomes his enemies, makes his religion the public one, purifies the Kaba from idols.

(5) "All that genius can effect upon a man of character and intellect was to be represented, and how it wins and loses in the process. Several songs which were to be inserted, were composed beforehand., all that remains of them is that which stands among my poems under the title Mahomet’s Song. Pp.557-559”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے