ایک بار پھرشکریہ راحیل شریف

چند روز قبل کشمیر سے میرے محسن نے مجھے یاد کیا ۔ سلام دعا کے بعد سیز فائر لائن کی صورتحال کے بارے میں بات چل نکلی تومیرے محسن نے بوجھل دل کےساتھ نوید سنائی کہ ا بھی صورتحال بہتر ہے مگر بدلتے حالات کا کیا پتہ کب گولی یا گولہ چلے اور سب کچھ ختم ہو جائے ۔کچھ دیر توقف کے بعد میرے محسن نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اب حالات بہتر رہیں گے ۔ سیز فائر معائدہ کی اب خلاف ورزی نہیں ہو گی ۔

میرے کریدنے پر میرے محسن نے بتایا کہ آپ خود کو دو ماہ پیچھے لے جائیں تو سب صورتحال واضح ہو جائے گی ۔ وادی کشمیر میں جاری صورتحال اور کنٹرول لائن پر کشیدگی بظاہر تو ایک ہی چیز نظر آتی ہے مگر ان دونوں کا آپس میں دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ۔

وادی کشمیر میں جولائی میں شروع ہونے والی تحریک سارک کانفرنس ، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے تناظر میں شروع ہوئی جبکہ اوڑی حملے کے بعد کنٹرول لائن پر گولہ باری فرد واحد کے اختیارات کی جنگ تھی ۔اپنے محسن کی ذو معنی باتیں سن کر میرے اندر بھی اشتیاق پیدا ہوا کہ ان تمام حالات سے آگاہ ہو جاوں اور اسی لے ان سے گزارش کی کہ اس ساری صورتحال سے مجھے بھی آگاہ کر دیں۔

میرے محسن نے لمبا سانس لیا اور گویا ہوئے ۔ وادی کشمیر میں عوامی احتجاج کا اسلام آباد سے گہرا تعلق ہے ۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو 1947سے 1990 کے درمیان وادی کشمیر میں اس طرح کا احتجاج کبھی نہیں ملے گا ۔حتیٰ کہ گوریلا لیڈر کی بھارتی جیل میں پھانسی کے وقت بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 10افراد نے بھی سڑکوں پر نکل کر احتجاج نہیں کیا۔

1990میں اسلام آباد کے تعاون سے وادی کشمیر میں گوریلا جدوجہد کا آغاز ہوا اور انتہائی کم وقت میں آدھا سری نگر آزادی پسندوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔بھارتی فوجی آزادی پسندوں سے جان کی امان طلب کرتے پھرتے تھے ۔ ریاستی اور بھارتی ادارے ان کا ہر حکم ماننے کے پابند تھے ۔ بھارت کا سرکاری ریڈیو اور ٹی وی چینل بھی آزادی پسندوں کو دہشتگرد کہنے سے انکاری تھے اور اس کیلئے عسکریت پسند(militant)کی اصطلاح استعمال کرتے رہے مگر یہ صورتحال زیادہ دیربرقرار نہ رہ سکی ۔جانتے ہو اس کی وجہ کیا ہے ؟

میرے انکار پر انہوں نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ریاست ظالم ، اندھی ،گونگی اور بہری چیز کا نام ہوتا ہے ۔ریاست کا انسان اور انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔1990کی تحریک کے ابتداءمیں آزادی پسند حاوی رہے مگر ریاست نے اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے کالے قوانین نافذ کیے ۔رٹ چیلنج کرنے والوں یا آزادی کا مطالبہ کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹااور یوں پوری وادی میں آزادی پسندوں سے پناہ مانگنے والی فوج کی اندھی حکمرانی قائم ہو گئی ۔

اسلام آباد کی بے رخی اور مخصوص مقاصد کے حصول نے آزادی کی تحریک شروع کرنے والوں کو بھی مسلح جدوجہد سے الگ کر دیا جس پر آزادی کی اس تحریک کو مذہبی رنگ ملا ، مخصوص رنگ میں ڈھالے جانے کے بعد تحریک میں اختلافات پیدا ہوئے ،پیسے کی ریل پیل نے اسے مزید گہنا دیا اور یوں یہ تحریک پراکسی وار بن کر رہ گئی ۔اسلام آباد کو جب ضرورت محسوس ہوئی تو میٹرو بس کی طرح ٹکٹ لیکر اس تحریک پر سوار ہو جاتا ہے اور جب مقصد پورا ہو جائے تو ٹکٹ واپس ڈال کر پلیٹ فارم سے باہر آ جاتا ہے ۔

رواں برس وادی کشمیر میں شروع ہونے والی تحریک بھی ایسے ہی مقاصد کیلئے تھی ۔ سارک کانفرنسز اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں واہ واہ سمیٹنے کیلئے سری نگر میںجاری آزادی کی پر امن جدوجہد کو نیا ولولہ دیا اور مسلسل ایندھن فراہم کر کے اسے دو ماہ تک شد و مد کے ساتھ جاری رکھا گیا۔ تمام کانفرنسز اور اجلاس ہونے تک تحریک اپنے عروج پر رہی اورپھر آہستہ آہستہ اس کی شدت میں کمی آنا شروع ہو گئی ۔بدلتے موسم کیساتھ ساتھ اب یہ مکمل سرد پڑ چکی ہے ۔

اب دوسرے پہلو کی جانب آتے ہیں جب وادی میں جاری تحریک آہستہ آہستہ کم ہوتی جاری تھی تو سیز فائر لائن کے قریب اوڑی میں بھارتی فوجی کیمپ پر حملہ ہو گیا جواب میں بھارت نے ستمبر کے آخر میں سرجیکل سڑائیک کر کے بدلہ لینے کا اعلان کیا جس کے بعد سیز فائر لائن پر دو طرفہ گولہ باری شروع ہو گئی اور یہ سلسلہ 25نومبر تک جاری رہا۔ پاکستان کے بہت سے سیاستدان اس گولہ باری کو بھارت کے ریاستی انتخابات سے جوڑتے رہے مگر انتخابات ہونے سے قبل ہی یہ سلسلہ ختم کیوں ہوا ؟

میں نے ایک بار پھر معصومیت سے لاعلمی ظاہر کی تو میرے محسن نے بتایا کہ یہ تمام کارروائی اسلام آباد کے ایک شخص کی جانب سے اپنی مدت ملازمت بڑھانے کیلئے تھی اس شخص نے اگرچہ 10ماہ قبل اعلان کر دیا تھا کہ میںمزید توسیع نہیں لوں گا مگر اندرون خانہ وزیر اعظم کو مدت ملازمت میں توسیع کیلئے دباوڈالا جارتا رہا ۔

حکمران جماعت بھی اسی معاملے میں دو حصوں میں تقسیم رہی ایک توسیع کے حق میں اور دوسرا توسیع کے خلاف رہا ۔دونوں گروپ وزیر اعظم کو قائل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے مگر نواز شریف نے کسی سے اتفاق اور اختلاف نہیں کیا۔حمایت اور مخالفت کرنے والوں کی باتیں اور مشورے سن کروزیر اعظم کھانا کھلا کر رخصت کرتے رہے ۔ حمایتی مدت ملازمت میں توسیع کی یقین دہانیاں کراتے رہے مگر مدت ملازمت پوری ہونے سے چند روز قبل سابق صدر آصف زرداری نے بیرون ملک سے بیان دیا کہ میں جلد واپس پاکستان آرہا ہوںیہ صرف اخباری بیان ہی نہیں بلکہ یہ ایک پیغام تھا اور دوسرے ہی روز صاحب بہادر نے کوچ کرنے تیاریوں کا اعلان کر دیا۔

آصف زرداری کے بیان سے ایک روز قبل ہی بھارت نے سیز فائر لائن پر فائرنگ کر کے 10مسافروں اور تین فوجی جوانوں کو شہید کر دیا تھا مگر اسی دوران سابق صدرکے چکا چوند بیان نے آخری امید بھی ختم کر دی اور شہدا ءکے خون کا بدلہ لینے کی بجائے صاحب بہادر کو الوداعی دوروں کی فکر ستانے لگی۔ سیز فائر لائن پر بارود اگلنے والی توپیں منہ توڑ جواب دینا بھول گئیں۔صاحب بہادر ابھی کھر کی راہ ہی لیے تھے کہ ایک سابق فوجی جنرل اور موجودہ وفاقی وزیر نے صاحب بہادر کو ملک سے غداری کے ملزم کو فرار کرانے کا بھی ذمہ دار ٹھہرا دیا۔صاحب بہادر چلے گئے اور اب بس سکوت طاری ہے ،ہر سو مکمل خاموشی ہے اور خدانہ کرئے کہ یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا بیش خیمہ بنے ۔

میرا محسن باتیں کرتے کرتے یکدم خاموش ہو گیا پھر ایک لمبا سانس بھرتے ہوئے بولا کہ ریاست کیسے کیسے ہتھکنڈوں سے انسان کو انسان کے خون کا پیاسا بنا دیتی ہے اگر عام انسان کو ان ہتھکنڈوں کا پہلے سے علم ہو جائے تو شاید ہی کوئی بے گناہ کسی معصوم اور بے گناہ کے ہاتھوں مارا جائے۔ اگرچہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر اپنے مفادات کیلئے ریاستیں مذہب کابھر پور استعمال کرتی ہیں ۔

انسان تو ویسے ہی لالچ اور خواہشات کا مرکب ہے۔ کبھی ”خلیفہ المسلمین” بننے کیلئے دام صیاد میں آتا ہے تو جہاد کے پہلے پانچ مرتبے بھلا کر چھٹے نمبر پر آنے والے” قتال“ کو خود پرفرض کر لیتا ہے۔ انسان جب انسان نہ رہے تو حیوانات سے بھی بر تر ہو جاتا ہے نئے صاحب بہادر کا جہاد پر استدلال متزلزل ہے اور اسی لیے انہوں نے بذات خودکسی غزوہ میں دست بدست شرکت نہیں کی ۔ بدیس میں اپنے فرائض ادا کرنے کا بھر پور تجربہ رکھتے ہیں۔

جہادی عناصر بھی نئے صاحب بہادر کوا سلامی” سپہ سالار“ ماننے سے انکاری ہیں۔ نئے صاحب بہادر کی تشریف آوری کے بعد وزیر خارجہ بھارت” یاترا“ بھی کر چکے ہیں۔ دو ماہ قبل تک غزوہ ہند کا ورد کرنے والے اور سیز فائر لائن کو مقدس جنگ قرار دینے والے پس پردہ چلے گئے ہیں۔شہید ہونے والے ڈیڑھ سو سے زائد بے گناہ کشمیری جنت سے یہ سب کچھ ہوتاہے دیکھ رہے ہیں اور تسبیح پر مسلسل کلمات مقدسہ کا ورد کر رہے ہیں” شکریہ راحیل شریف“ آپ کی وجہ سے ہمیں بھی جنت ملی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے