سی پیک سے جڑے اندیشے

کچھ روز قبل مجھے پاکستان کونسل آف میڈیا ویمن کے زیر اہتمام سی پیک پر ہونے والی انتہائی اہم ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا جس میں شرکت کرنے کے بعد مجھے اور مجھ جیسے تمام تر طفلِ مکتب کو گودار سمیت سی پیک اور اس کے حوالے سے ہونے والے ملک گیر معاشی انقلاب کے بارے میں جان کر انتہائی خوشی ہوئی۔

ورکشاپ کے دوران یہ جان کر بھی انتہائی مسرت ہوئی کہ بین الاقوامی کاروباری سیکٹر کا گوادر سمیت مختلف قومی منصوبوں میں دلچسپی لینا انتہائی خوش آئند ہے۔

بین الاقوامی ادارے خصوصاقطر انرجی کوریڈور کا گوادر میں بنایا جانا بھی پاکستان قطر کے مابین ایک نہایت اہم سنگِ میل کی شروعات ہے
اس منصوبے کے تحت بلوچستان کی عوام کو براہ راست فائدہ پہنچے گا۔

ورکشاپ کے دوران میں نے جن اہم اور مفید باتوں کو سمجھا انہیں اپنی تحریر کا حصہ بنا لیا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گوادر پاکستان کی وہ معاشی شہہ رگ ہے جس کے مکمل فعال ہونے کے بعد پاکستان ان ممالک کی صف میں آ کھڑا ہوگا جو جنوبی ایشیا میں اپنی معاشی و اسٹرٹیجک صلاحیت کی وجہ سے اپنا ایک الگ مقام اور حیثیت رکھتے ہیں۔

پاک چین اکنامک کوریڈور اس سلسلے کی ایک مضبوط کڑی ہے

پاکستان میں اب تک ہونے والی کسی بھی بیرونی سرمایہ کاری کے مقابلے میں سی پیک اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے جس میں چین نے ساڑھے اکیاون ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کی ہے۔

اس سرمایہ کاری میں گوادر پورٹ کی تعمیر کےساتھ ہائی ویز کا جال اور ریلوے ٹریک جیسے بڑے منصوبے میں شامل ہیں

اس منصوبے میں پورے ملک کیلیے پیکجز رکھے گئے ہیں جیسا کہ بلوچستان کیلئے سولہ انتہائی بڑے منصوبے، خبیر پختونخوا کیلئے آٹھ، سندھ کیلئے تیرہ اور پنجاب کیلئے بارہ بڑے منصوبے ہوں گے، ان تمام منصوبوں پر چائینیز حکام کے علاوہ پوری دنیا کے نظریں ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری کا سب سے اہم مرکز گوادر کی بندرگاہ ہے جو دنیا کا سب سے بڑا بحری راستہ ہوگا یہ بحری راستہ اپنے شاندار محل وقوع کے باعث عالمی اہمیت اختیار کر چکا ہے گوادر کی بندرگاہ گہرے پانی میں ہونے کے ساتھ ساتھ بحیرہ عرب پر خلیج فارس کے دھانے کے قریب واقع ہے جو خلیجی ریاستوں کیلئے تیل کی برآمد کا واحد بحری راستہ ہے چین کی دلچسپی اس پر آج سے نہیں مشرف دور سے تھی جب چین نے پیشکش کی تھی کیونکہ چین کی ساٹھ فیصد انرجی کیلئے مشرق وسطیٰ سے تیل آتا ہے دوسری طرف امریکا کو چین سے خطرہ ہے اور امریکا خطے میں چین کا اثر ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ چین کے دشمنوں سے جن میں جاپان بھارت اور ویتنام شامل ہیں، انہیں ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے،

اس صورتحال میں چین کی کوشش ہے کہ سی پیک جلد از جلد مکمل ہو جبکہ پاکستان کے لیے گوادر اس خطے میں تجارتی اور دفاعی حوالے سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے دیگر ممالک نے بھی گوادر پورٹ کو چلانے کی پیشکش کیں اور چند ایک ممالک نے معاہدے بھی کئیے مگر چین وہ واحد ملک ہے جس نے بڑے پیمانے پر گوادر میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا۔
سی پیک منصوبے میں گوادر شہر اور اسکی بندرگاہ کو ملک کے دیگر شہروں کو بڑی خوبصورتی کیساتھ ملایا جا رہا ہے

دو ہزار سولہ تک گوادر سے کوئٹہ اور گوادرسے رتو ڈیرو کے مابین سڑک کی تعمیر بھی پلان کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جس کی تعمیر کے دوران مقامی آبادی کے ایک بہت ہی بڑے حصے کو روزگار کے بے انتہا مواقع فراہم ہوں گے۔

گوادر کی جہاں بے پناہ قدرتی خوبیاں ہیں وہیں ، اسکی گہرائی کراچی کی بندرگاہ کی نسبت بہت زیادہ ہے. اس طرح بڑے بحری جہاز گوادر میں باآسانی لنگرانداز ہوسکتے ہیں اسکی یہ ہی خوبی پاک چین اقتصادی راہداری کی بدولت اپنی ترقی کے نئے سفر کا آغاز کرے گی اس طرح پاکستان اپنے ممکنہ معاشی اہداف حاصل کرے گا۔

اکنامک کوریڈور کی وجہ سے جہاں ہمارے ملک کی عوام کو کئی فوائد حاصل ہوں گے وہیں نچلے طبقے کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ صنعتوں کے قیام سے نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں کافی حد تک کمی ہونے کا امکان ہے۔

خطے اور بیرونی دنیا میں موجود پاکستان اور چین کے مشترکہ دشمن یہ ہر گز نہیں چاہتے کہ یہ منصوبہ کسی بھی صورت پایہِ تکمیل کو پہنچے دوسری طرف چا بہار میں بھارت بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔ لیکن وہ شاید یہ بات نہیں جانتے کہ چا بہار کا گوادر سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کیوں کہ گوادر ڈیپ سی پورٹ ہے جبکہ چا بہار نہیں۔ جو جہاز گوادر پہ لنگرانداز ہو سکتے ہیں وہ کسی بھی صورت چا بہار پہ نہیں ہو سکتے ۔ لہذا ایسے بڑے بحری جہاز چابہار کے بجائے گوادر پہ ہی انحصار کرینگے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایران اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے ۔ اور اب وہ خود سی پیک میں حصہ داری چاہتا ہے ۔

پاکستان کو بھی پوری دنیا کو اس پروجیکٹ کا مخالف بنانے کے بجائے اس میں حصہ داری دینے کی پالیسی اپنانی ہوگی ۔ جس سے مخالفتیں دم توڑ جائینگی ۔
پاکستان کی اقتصادی ترقی کے مخالف اس پروجیکٹ کے خلاف منفی پروپگینڈہ کرنے میں مگن ہیں مگر پاکستان اور چین پرعزم ہیں کہ ایک وقت آئے گا کہ یہ منصوبہ دنیا کے سب سے بڑے معاشی منصوبوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔

پاکستان کے مخالفین کہتے ہیں کہ چین پاکستان میں صرف ایک سڑک کی بنیاد رکھ رہا ہے جس کی شروعات چین سے ہوتی ہوئی گوادر پورٹ تک جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کے یہ ایک سڑک ہی ہے مگر اس کے راستے میں کئی صنعتی زون اور پاور پروجیکٹس قائم ہورہے ہیں اور ان تمام پرجیکٹس کی سیکیورٹی پاک فوج کے جوانوان نے سنبھالی ہوئی ہے۔

پاک بحریہ نے گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری کیلئے خصوصی سیکیورٹی فورس تشکیل دیدی ہے جسے ٹی ایف – 88کا نام دیا گیا ہےجو سپیشل سیکیورٹی ڈویژن کیساتھ مشترکہ طور پر فرائض انجام دیں گے،یہ فورس جاسوس جنگی طیاروں، ڈروننز اور جدید ہتھاروں سے لیس ہونگی جو بری ٹریفک کو دہشت گردی ، اسمگلنگ اور لوٹ مار سے بچائے گی اس کے علاوہ گوادر میں جو چینی انجینئرز کام کار رہے ہیں ان کی سیکیوریٹی کے لیے پہلے ہی ایک اور فورس پروٹیکشن بٹالین بھی تشکیل دی تھی جسکی ذمہ داری پہلے ہی پاکستان نیوی اٹھا رہی ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری چین کے صوبے سنکیانک سے شروع ہوتی ہوئی گلگت بلتستان کے علاقہ خنجراب سے ملتی ہے اور پھریہ سڑک خیبر پختونخواہ میں داخل ہوتی ہوئی ایبٹ آباد، ہری پور سے گزرتے ہوئے پنجاب کے شہر حسن ابدال اور پھر اسلام آباد پشاور موٹر وے سے ملتی ہے پھریہاں سے اقتصادی راہداری گوادر تک جانے کیلئے دو بڑے روٹ میں تقسیم ہو جاتی ہے مشرقی اور مغربی روٹس کا اگر جائزہ لیا جائے تومغربی روٹ کا فاصلہ دو ہزار چھ سو چھیتس کلومیٹر ہے

صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک سے شروع ہونے والا یہ روٹ ڈیرہ اسماعیل خان، فاٹا سے گذرتا ہوا بلوچستان میں داخل ہوتا ہےبلوچستان کے شہر ژوب سے گذرتا ہوا کوئٹہ میں داخل ہوتا ہے جہاں سہراب اور پنجگور کو کراس کرتا ہوا یہ اپنی منزل گوادر پر اختتام پذیر ہوتا ہے اور اس طرح سے یہ سڑک گوادر کے راستے سے ہوتی ہوئی ہمارے برادر دوست ملک چین سے جا ملتی ہے۔

مشرقی روٹ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس روٹ کا فاصلہ دو ہزار سات سو اکیاسی کلومیٹر پر مشتمل ہے

یہ روٹ لاہور اسلام آباد موٹر وے سے شروع ہوتا ہے اس میں فیصل آباد موٹر وے اور ایم 5 کا روٹ شامل ہے،

لاہور کراچی موٹر ویز بھی اسی روٹ کا ایک خوبصورت حصہ ہیں اس روٹ کے بڑے شہروں میں لاہور، ملتان، سکھر،حیدرآباد اور کراچی آتے ہیں. کراچی اور گوادر کی پورٹ کو ملانے کیلئے کوسٹل ہائی وے پہلے سے موجود ہے۔

چائنا پاکستان اقتصادی راہ داری محض ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ متعدد پروجیکٹس کا مجموعہ ہے جس میں پینتیس 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں اور 11 ارب ڈالر اقتصادی راہ داری اور صنعتی زونز پر خرچ کئیے جائینگے اقتصادی راہ داری جن جن بڑے شہروں سے گزرے گی وہاں صنعتی زونز قائم کیئے جائینگے۔
گوادر بندرگاہ سے برآمدات کا سلسلہ بروز اتوار 13 نومبرسے شروع ہوگیا اور اس کا افتتاح وزیر اعظم نوازشریف نے کیا۔ سی پیک منصوبے کے تحت 300 کنٹینرز پر مشتمل پہلا میگا پائلٹ ٹریڈ کارگو گوادر سے روانہ ہوا۔

نوازشریف نے 12 نومبر کو تاریخی دن قرار دیا اور کہا وہ منصوبہ جو 2 سال پہلے شروع ہوا تھا آج حقیقت کا روپ دھار رہا ہے ،سی پیک منصوبہ ایک خطہ -ایک سڑک وژن کا آغاز ہے جب کہ گوادر اقتصادی راہداری منصوبے کے سر کا تاج ہے، سی پیک سے پاکستان تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا اور گوارد بندر گاہ وسط ایشیائی ریاستوں سے ربط پیدا کرے گی،چینی سفیرسن وی ڈونگ نے کہا کہ سی پیک کے تحت پہلے منصوبے کے افتتاح پرمبارکباد دیتاہوں، یہ پہلا موقع ہے کہ تجارتی قافلہ پاکستان کے مغربی حصے سے داخل ہوا اور اس منصوبے پر ہم حکومت اور فوج کے مشکور ہیں،پاک چین راہداری منصوبہ پاکستان اور چین سمیت پورے خطےکے عوام کے لیے مفید ثابت ہوگا کیونکہ اس منصوبے کے تحت 10 ہزار سے زائد نوجوانوں کو روزگار ملے گا جب کہ اس پائلٹ پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے ایف ڈبلیو او کا اہم کردار رہا ہے۔

واضح رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت گوادر پورٹ کی انتظامی ذمہ داریاں چین کے سپرد کردی گئی ہیں اور چین گوادر پورٹ کے ذریعے ہی اپنی درآمدات اور برآمدات کرے گا۔ گوادر بندر گاہ کے ذریعے چین اپنا تجارتی سامان باآسانی مشرق وسطیٰ اور افریقا تک پہنچا سکے گا۔
مگر اس سے قبل یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ بلوچستان جو سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے وہ تمام وسائل ہونے کے باوجود آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم کیوں ہے..؟

یہ ایک ایسا تلخ سوال ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا اور اسی سوال کو بنیاد بنا کر کچھ سیاستدان اپنی بند ہوتی سیاست کی دکانیں چمکا بیٹھے ہیں،بلوچستان کی عوام میں موجود تمام خدشات اور انکی جائز محرومیوں کو ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہئے تاکہ گوادر سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع کے عوام اس منصوبے کو اپنی ذاتی ترقی اور خوشحالی سمجھیں کیونکہ بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کا یہی گلہ ہے کہ ماضی میں بھی یہاں سرمایہ کاری کی گئی مگر اس کے فوائد مقامی آبادی کو نہیں ملے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سی پیک سے پاکستانی عوام کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئے گی۔

حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ماضی میں ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اقتصادی راہداری کے فوائد بلوچستان کے عوام تک پہنچائے کیونکہ بلوچستان میں تعلیمی اداروں سے لیکر صحت کے بنیادی مسائل ہیں پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں، وہاں ان ترقیاتی کام کے ساتھ ساتھ بنیادی سہولیات بحی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، دوسری جانب سی پیک روٹ پر بھی کچھ اپوزیشن جماعتیں مطمئن دکھائی نہیں دیتیں. پاکستان میڈیا کونسل آف ویمن نے جس اہم ایشو کی طرف عوامی توجہ مبذول کروائی ہے وہ بہت اہم نکتہ ہے جسے وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے آگے لے جانا چاہیے، بلوچستان میں جس طرح کی ناراضگی موجود ہے اس ایشو کو حل کرنے کی ذمہ داری صرف وفاقی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے اور وفاق ہی کی زمہ داری ہے کہ وہ ایسا ماحول بنائے جس سے اس اہم منصوبے پر کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق حکمران متعدد بار اس بات کو دہرا چکے ہیں کہ دشمن ممالک کی آنکھوں میں یہ منصوبہ چُبھ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں کے حالات خراب کر رہے ہیں مگر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے شہریوں کے خدشات اور تحفظات دور کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے