حلب کی جرات کو سلام

حلب برسوں جلتا رہا ۔۔ آج دم توڑ گیا ۔۔ تبدیلی و مزاحمت کے آخری استعارے میں آج قیامت برپا ہے۔یہاں اب کوئی رونے والاہے نہ ہی آہ و بکاکرنے والا ۔۔ لاشوں کے ڈھیر ہیں ،لاشیں گننے والا کوئی نہیں ۔۔ حلب کی گلی گلی کربلا کا منظر پیش کرتی ہے ۔۔دمشق میں بیٹھے یزید نے ماسکو اور واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کی آشیرباد ،ایران اور حزب ایران کی مدد سے مظلوم شامیوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ،اس کی مثال نہیں ملتی۔۔

شامی اور روسی فضائیہ کی حلب پر مسلسل گولہ باری ، کئی ماہ سے جاری محاصرے کے نتیجے میں اسدی فوج نے حلب پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے۔ شام کے سب سے بڑے شہر کا ہر قصبہ خون میں لت پت ہے ۔۔سڑکیں ویران، عمارات ملبے کا ڈھیر بنی ہیں۔آمر تو ہے ،مگر رعایا کوئی نہیں۔ بھوک سے تڑپتے وہ شہری جو کبھی کتے کا گوشت کھانے پر مجبور تھے ، آج ان کی لاشوں سے کتے اپنا پیٹ بھرتے نظر آرہے ہیں۔۔آج سے صرف چھ سال پہلے جس شہر کی آبادی تیس لاکھ سے زیادہ تھی وہاں اب پچاس ہزار سے بھی کم شہری بچے ہیں جنہیں اپنی موت آنکھوں سامنے دکھائی دے رہی ہے۔بشا رکے حواریوں کا بھوکے بھیڑیوں کی طرح معصوم بچوں،مرد اور عورتوں کو اپنی جنونیت کی بھینٹ چڑھانے کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

"یہ شائد ہمارا آخری پیغام ہو ،ہمارے بچوں کو بچایاجائے۔ ”

"میں ابھی ٹوئٹ کرنے کے قابل ہوں، شائد یہ میری آخری ٹوئٹ ہو۔۔”

"میں بہت غمگین ہوں،دنیا ہماری مدد کو نہیں آتی۔۔ ۔”

مشرقی حلب میں رہنے والے شامیوں کے ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس پر آخری پیغامات دنیا ،خصوصاً مسلم دنیا کی بے حسی پر خاک برساتے ہیں۔۔

اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم کے مطابق شامی فوج اندھا دھند لوگوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ باغیوں کے زیرانتظام آخری قصبے الفردوس میں بشار کی فوج کی جانب سے نو بچوں اور چار خواتین کو زندہ جلائے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔حلب کو صفحہ حستی سے مٹانااصل ہالوکاسٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ نسل کشی اور قتل عام نہیں تو اور کیا ہے؟

امریکی جریدے فارن پالیسی کے صحافی مائیکل ویس لکھتے ہیں کہ حلب کے شہری اسدی فوج کے ہاتھوں پکڑے جانے سے زیادہ خودکشی کو ترجیح دے رہے ہیں۔۔وہ تشدد سے گٹھ گٹھ کر مرنا نہیں چاہتے۔۔ خواتین ظالموں کی حوس کا نشانہ نہیں بننا چاہتیں ۔ حلب کے غیرت مند وں کا جید علما کرام اور نامی گرامی مفتیان کرام سے بھی ایک سوال ہے، پوچھتے ہیں کیا ان کے لیے خود اپنے بیوی بچوں کو قتل کرناجائز ہے، اس سے پہلے کہ اسدی فوج کے غنڈے ان کی عزتوں کو تار تار کریں ؟ شائد انہیں یہ معلوم نہیں کہ ہمارے علما و مشائخ اس وقت جشن عید میلاد النبی ﷺ منانے میں مشغول ہیں ۔ وہ اس بحث میں پڑے ہیں کہ سیلفی لینا جائز ہے یا نہیں؟ گستاخ رسول کون ہے، بدعتی کون ؟

مظلوموں نے جب امت کے نوجوانوں کو جھنجوڑا تو معلوم پڑا کہ حلب میں انسانیت سوز واقعات پر غور کرنے سے زیادہ یہ جاننا ضروری تھا کہ اس بار بہترین فٹبالر کا اعزاز کسے ملا۔مسلم افواج سے گلہ کیا تو جواب ملا کہ خون مسلم کی حرمت سے زیادہ حلب میں واقع سلیمان شاہ کا مقبرہ زیادہ عزیز تھا۔ شعلوں میں لپٹی لاشوں کو ٹھنڈی کرنے سے زیادہ اہم قابض اسرائیلیوں کے جنگلات میں لگی آگ کو بجھانا تھا۔ دنیا کی نمبر ون فوج کو جھنجوڑنا شائد اس لیے مناسب نہ سمجھا کہ وہ کشمیر اور افغانستان کا حال پہلے ہی دیکھ چکے ہیں ۔

آج جو حال حلب کا ہے، کچھ برس پہلے بغداد ،کابل اور ننگر ہارکا تھا۔ مگر نہتے حلب والوں جیسی جرات اور بہادری کا مظاہرہ شائد ہی کسی نے کیا ہو ۔ دلیری کی ان گنت داستانیں ہیں ۔سو جانثاروں پر مشتمل رایہ الاسلام بریگیڈ جرات و استقامت کا ایک نام ہے۔جس کے تمام جوانوں نے صرف اپنے عہد کو پورا کرنے کی خاطر اپنی جانیں عوام کے جان و مال کی حفاظت پر نچھاور کردیں ۔۔جس نازک موڑ پر دیگر باغی دھڑوں نے حلب کا محاذ چھوڑا ، ابولجد کی کمان میں لڑنے والے اس دستےنے محاذ پر ڈٹے رہ کر غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیراور ان کے ثابت قدم تیر اندازوں کی سنت تازہ کردی۔

ہمیں رشک ہے حلب والوں پر جنہوں نے تن تہا بشارالاسد، ایران اور روس کو ٹکر دی مگر ڈوب مرنے کا مقام ہے ان کیلیے جواستطاعت و استعداد کے باوجود بلکتے شہریوں کی مدد کو نہ پہنچے۔کسی نے صحیح کہا ہے کہ حلب گرا ہے جھکا نہیں، حلب اٹھے گاضرور اٹھے گا۔مگر حلب اقوام عالم کی خالی خولی بیان بازیوں ، ترکی کی مجرمانہ خاموشی،عربوں کی ہٹ دھرمی اور مسلم دنیا کی بے حسی نہیں بھولے گا،کبھی نہیں بھولے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے