شہید شمس الحق علم و عمل کا پیکر

’’ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے ،بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ شاعر کا یہ شعر شہید شمس الحق پر صادق آتا ہے ۔ان کی قابلیت ،خداداد صلاحیت،علم و عمل ، غیرت و حمیت ، تقویٰ و پرہیزگاری اور حلم و انکساری ان کو دیکھتے ہی صاف نظر آتے تھے۔جنہوں نے بھی شمس الحق کو قریب سے دیکھا ہوگا وہ میرے ان الفاظ کی’’تکمیلِ مضمون کے لئے خانہ پری کے برعکس صداقت کی‘‘ تصدیق کریں گے ۔کشمیر کی کربناک داستان میں صرف مظلومیت، آہ و بکاء اورنالہ و فغاں ہی نہیں ہے بلکہ اس سرزمین نے باحوصلہ ، جری اور بہادر نوجوانوں کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے سرخیل حضرات غنی کشمیر ی ،شیخ یعقوب صرفی اور اقبال جیسی بے مثال ہستیوں کو بھی جنم دیا ہے ۔

یہ قوم گذشتہ ڈھائی سو برس سے اپنی کھوئی ہوئی پہچان کے لیے برسرپیکار ہے ،علاقائی طاقتورجبرنے اس کی روح کو پامال کردیا ہے ،ہر دور میں اس کے جیالوں نے اسکے اقدار کے تحفظ کے لیے جان کی بازی لگانے میں کوئی تردد یا تذبذب محسوس نہیں کیا اور سچی بات یہ ہے کہ1990ء میں تو اس سر زمین نے جیالوں کی ایک فوج کو وجود بخشا جن میں اکثریت کے حالات و واقعات سے یہ قوم اب تک ناواقف ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ گم نام راہوں اور گوشوں میں مارے جانے والے مخلص اور ایثار پیش جری اور بہادر نوجوان بڑے کمانڈر یا لیڈر نہیں تھے اور جن کے ساتھ ’’عہدِوفا‘‘باندھی تھی انھوں نے بھی صرف سانس لینے تک یاد رکھا ۔چہارم کا سورج طلوع کیا ہوا کہ گویا کتابِ زندگی کے ساتھ پورے خاندان کی بساط ہی لپیٹ دی گئی ہو نہ کسی کو کوئی یتیم یاد رہا اور کسی کو بیوہ اور نہ ہی دردر کی ٹھوکریں کھانے والے شہید کی ا ماں !اور یہ کشمیر میں اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم دنیا کی قوموں کے بالکل برعکس ایسی قوم ہے جس کے پاس باتونی دانشور،لیڈر،عالم ،صحافی اور کمانڈران کی فوج تو ہے مگر عملی میدان میں کچھ کرنے کے لیے حوصلہ اور مستقل مزاجی نہیں ۔اس سب کے باوجود اس سرزمین کے نامی سپوتوں جن میں شہید شمس الحق ایک روشن ستارے کے طور پر ابھرے ہیں علم و ادب کو کبھی بھی کسی بھی حال میں نظرانداز نہیں کیا۔اس لئے کہ آزادی کی جنگوں میں باشعور قومیں علم و ہنر کو ترک نہیں کرتی ہیں ۔

شہید شمس الحق نے ابتدائی تعلیم کے بعد کشمیر یونیورسٹی سے تین مضامین میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ۔عالمِ شباب میں ہی انھیں جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا تعارف حاصل ہوا ۔شمس الحق شہید نے آنکھ بند کر کے نہیں بلکہ پورے غور و فکر کے ساتھ علامہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا لٹریچر پڑھا اور شعور کی بیداری کے ساتھ ان کی دعوت کو قبول کر کے آخری سانسوں تک ہی نہیں بلکہ خون کے آخری قطرے تک اسے وفا کی ۔حق صاحب کو اللہ نے بے مثال حافظہ سے نوازا تھا۔انھیں ہزاروں احادیث ازبر تھیں ۔قرآن و حدیث کو یاد کرنے کا انھیں بہت شوق تھا ۔شہادت سے چند برس قبل میں نے ’’شبِ قدر کی طاق شبوں ‘‘میں انھیں احادیث حفظ کرتے ہو ئے دیکھا ۔مطالعہ اور پڑھنے کا شوق انھیں اس قدر تھا کہ سفر و حضر میں پڑھتے ہی رہتے تھے حتیٰ کہُ اس ’’ بس ‘‘میں بھی جہاں سواریوں کا شور اور بے ہنگم چیخ و پکارہر دم بلند ہوتی رہتی ہے ۔دینی اجتماعات میں جب کہیں کسی اسٹال پر نئی کتاب دیکھتے تھے تو فوراََ خرید کر اس کا مطالعہ شروع کر دیتے تھے ۔کشمیری،اردو،عربی،انگریزی زبانوں پر انھیں دست رس حاصل تھی گر چہ فارسی سے بھی بڑا شغف تھا۔شہید شمس الحق بہت کم بولتے تھے ۔آپ کچھ پوچھتے تو جواب مختصر،البتہ کوئی علمی بات ہوتی تو وہ گھنٹوں بولتے تھے ۔مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے خالص علمی نشست میں انھیں مخصوص موضوع پر بات کرنے کے لئے مدعو کیا تو سامعین مبہوت ہو گئے ۔قرآنی آیات،احادیث اور ائمہ اسلام کے حوالوں کی ایسی بھرمار کہ تین گھنٹوں تک کسی کو پہلو بدلنے کی بھی خواہش نہیں ہوئی ۔اللہ تعالیٰ نے انھیں علم ہی نہیں عمل سے بھی نوازا تھا ۔اللہ کے راستے میں شہادت سے انھوں نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ۔

وہ بعض نادان دوستوں کی طرح ’’دین و سیاست‘‘کی تفریق کے قائل نہیں تھے ۔ایک سرگرم داعی اور مصلح کے ساتھ ساتھ وہ ایک متحرک سیاستدان بھی تھے ۔انھوں نے جماعت اسلامی جموں و کشمیر کی ٹکٹ پر 1983ء اور1987ء کے الیکشنوں میں حصہ لیا مگر ظالموں نے انھیں شکست سے دوچار کرنے کے لئے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمایا جس سے ان کے مخالفین کی جیت یقینی ہو جاتی تھی ۔1987ء کے الیکشنوں میں ریکارڈ دھاندلیوں کے بعد کشمیر کے مسلمانوں میں الیکشن سیاست پر سے اعتماد اٹھ گیا اور سویت یونین کے افغانستان میں رسوا ہو نے سے کشمیر کے دیندار نوجوانوں پر ’’بزور بازو تبدیلی لانے ‘‘کا جذبہ اجاگر ہوا تو پاکستان ہجرت کرنے کا شوق بڑھنے لگا ۔ان نوجوانوں کو صاحبِ بصیرت اور باشعور قیادت کی ضرورت تھی توان کی نگاہیں ’’تحریک اسلامی‘‘کی جانب اٹھیں جس نے انھیں مایوس نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ شہید شمس الحق ہی نہیں غلام محمد صفی ،مولانا غلام نبی نوشہری اور سیدصلاح الدین احمد جیسی معروف شخصیات نے سرحد عبور کرنے کا فیصلہ کیا ۔یہ ٹھیک ہے کہ حالات ہر وقت ایک جیسے نہیں رہتے ہیں اور نا ہی عالمی سامراج کے ہر لمحہ بدلتے مزاج میں پرانے موقف کی ’’سیاسی گنجائش ‘‘موجود رہتی ہے مگر سچائی یہی ہے کہ ان جیسے سینکڑوں بزرگوں نے اس دور میں ’’عسکریت‘‘کو گلے لگایا جب اس کے ’’ثمرات اور فصل‘‘کی کوئی امید نہیں تھی ۔

شمس الحق نے حزب المجاہدین میں باضابط شرکت اختیار کی اور انھیں حزب المجاہدین نے ’’امیر حزب‘‘مقرر کیا ۔امیر ہی نہیں بلکہ وہ اس کے ناظم تعلیم وتربیت رہے ۔پاکستان میں قیام کے دوران انھوں نے اپنے علم وحلم اور تواضع و انکساری سے ایک دنیا کو متاثر کیا ۔کشمیر لوٹنے کے بعد’’ ڈوگرہ ریجمنٹ‘‘نے انھیں تین ساتھیوں سمیت گرفتار کیا۔ 16دسمبر 1993ء کو ساتھیوں سمیت قتل کر کے ان کی لاشیں ورثأ کو دیدی گئیں۔شہید شمس الحق نے کبھی بھی کفر اور طاغوت سے سمجھوتا نہیں کیا نا ہی وہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘کے سیاسی حل سے پر امیدتھے ۔انھوں نے سر کی آنکھوں سے دلی سرکار کی بد نیتی اور غیر اخلاقی روش دیکھی تھی ۔انھوں نے جان بوجھ کر ’’جہادی راستہ‘‘منتخب کر لیا تھا ۔حریت کانفرنس کے وجود میں آنے سے بہت پہلے شمس الحق نے اقامت دین اور وطن کی آزادی کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا تھا ۔متحدہ حریت کانفرنس کے وجود میں آنے کے بعد جو گلے شکوے شہداء کے ورثا میں پیدا ہوئے اور بد گمانیوں کا ایک لاوا پھوٹ پڑا وہ اب تک ان ورثأ کے دلوں میں ’’تمام تر لیپا پوتی کے باوجود‘‘موجود ہے کہ جن ’’معصومین کے خون ‘‘نے حریت کو مقام بخشاانھیں اس نے بھول کر بھی کبھی یاد نہیں کیا۔ ضلع بڈگام کے غلام محمد میرکا جہادی نام شمس الحق تھا انھوں نے اپنی ’’صورت و سیرت‘‘سے غلامانِ محمد کے قافلہ میں شمولیت اختیار کی تھی اور پھر زندگی کی آخری سانسوں میں اپنے جہادی نام کی اپنے خون سے تفسیر کرتے ہو ئے اس کی لاج رکھ کر ایک مثال قائم کردی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے