سولہ دسمبر: میں شرمندہ ہوں

دو تین روز قبل ایک ویب سائیٹ پر خبر پڑی تو خیال آیا کہ سولہ دسمبر آنے والا ہے ، سانحہ پشاور کے دو سال مکمل ہو رہے ہیں اس انتہائی اہم موقع پر مجھے ضرور کالم لکھنا چاہیے ، جذبات سے بھرپور ، دکھ درد کی سسکیاں لیتے ہوئے الفاظ میں پڑھنے والوں کو رلا دینا چاہیے ، شاعری اور جذبات سے بھرپور تحریر پر واہ واہ کے تبصرے ہوں گے اور میں ان مائوں بہنوں اور بھائیوں کے جذبات کے ساتھ کھیلوں گا جن کے لخت جگر ان سے جدا ہو گئے جیسے مجھے ان سے زیادہ دکھ اور سوگ ہے ، لیکن میں ایسی منافقت نہیں کر سکا ، مجھے اس کی بجائے عجیب احساس ہوا ، میں سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کے واقعے کو سولہ جنوری دو ہزار پندرہ صرف ایک ماہ بعد کافی حد تک بھول چکا تھا ، جیسے اخبارات میں خبریں ایک ماہ بعد صرف دو چار رہ گئی تھیں جیسے فیس بک اور سوشل میڈیا پر پروفائل تصاویر سیاہ سے دوبارہ رنگین ہو گئی تھیں جیسے ٹی وی چینلز کے لوگو اپنی اصل حالت میں آ گئے تھے جیسے حکمران بھول گئے تھے ویسے ہی میں بھی بھول گیا تھا ،

میں منافقت نہیں کر سکا ، میں شرمندہ ہوں ، ایسے سانحے سے ہماری حکومت ، ہمارے اداروں ، ہماری نوجوان نسل کسی نے سبق نہیں سیکھا تو میں ایک عام سا صحافی ہوں میں نے بھی نہ کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی میں نے کوئی اپنے دل سے عہد کیا نہ اپنے ضمیر سے کوئی وعدہ کر سکا جس کو ساری زندگی پورا کرتا ،
مرے پاس ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں کہ میں ان جذبات کا مداوا کر سکوں اس ماں کے احساسات سے کھیل سکوں جس کا معصوم بچہ سکول گیا اور پھر کبھی واپس نہ آیا ، اور اب اسے ہر وقت اپنے گھر میں وہ نظر آتا ہے لیکن وہ اسے چھو نہیں سکتی ، وہ باپ جس نے اپنے تینوں لخت جگر کھو دیئے ، میں کیا لکھوں اس پر اور اس کے جذبات پر اس کے احساسات پر ، کوئی شاعری کوئی الفاظ چاہے آئی ایس پی آر کا گانا ہو کوئی بھی اس کا مداوا نہیں کر سکتا ، کوئی بھی اس کو بیان نہیں کرسکتا

آج سانحہ کی دوسری برسی ہے ، صبح سے ٹی وی چینلوں پر نوحہ پڑھے جا رہے ہوں گے جذبات سے عاری مداری نما اینکر اور روزانہ ڈانس گانے بجانے والے پروگراموں میں آج نمائشی آنسو بہائے جا رہے ہیں ، سب سے بڑا ظلم ان والدین پر جو آج اپنے بچوں کی قبروں پر جانے کے بجائے اسی سکول میں مدعو کیے گئے اور بہت بڑی پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا ، کیوں ؟ انہیں مجبور کیا گیا کہ صبح صبح تیار ہو کر دعوتی کارڈ لے کر اسی جگہ پہنچیں جہاں آپ کے معصوم بچوں کو چھلنی چھلنی کیا گیا ، وہاں جا کر روئیں اور یادیں تازہ کریں ، وہاں جا کر تقریریں سنیں ، وہاں جا کر اپنا غم بھول جائیں بہت ہی نظم و ضبط کے ساتھ اعلی عسکری و سول قیادت کے سامنے مہذب ہو کر بیٹھیں ، نہ اونچی آواز میں رو سکتے ہیں نہ دل سے بین کر سکتے ہیں دن بھر ایسی نمائشی تقریب میں گزاریں اور پھر سرکاری کھانا کھا کر واپس آ جائیں ، آپ کے معصوم بچوں کی شہادت کی دوسری برسی منا لی آپ نے ، اتنی سخت سیکیورٹی میں آپ کو چیک کر کے تقریب میں لے جایا گیا اور پھر جب تک اعلی عسکری و سول قیادت اپنے گھروں تک نہیں پہنچ گئی آپ اس خوفناک عمارت کے اردگرد قید ہیں جہاں پر اپ کے بچوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا ۔۔۔

وزیر اعظم نے بھی انتہائی دکھ بھرے پیغام میں متاثرہ خاندن کے دکھ میں شرکت کر لی ، کسی نے خراج تحسین پیش کر لیا بس ہو گئی برسی ۔۔۔
ایسے اتنے بڑے سانحہ سے ہم نے کچھ نہیں سیکھا ، ہم نے ان سوگوار خاندانوں کو بھی ساتھ ساتھ تذلیل کرنے کا عزم اٹھایا ہوا ہے اور آگے بڑھ رہے ہیں دو دن بعد کسی کو سانحہ پشاور کی یاد نہیں ہو گی ، پھر تمام حکومت اپنے کرپٹ وزیر اعظم کے دفاع میں لگ جائے گی اور آرمی چیف آگلے مورچوں کے دوروں پر چلے جائیں گے اور میڈیا پاکستان تحریک انصاف کے مسائل اجاگر کرنا شروع ہو جائے گی

نیشنل ایکشن پلان کا فرضی ڈرامہ ، آئی ایس پی آر کے ایک دو گانوں اور منافقانہ ماتم کرنے کے علاوہ کیا حاصل کیا ؟؟؟
جنرل راحیل شریف نے ملٹری آپریشن تیز کیا تو دہشتگردوں نے چارسدہ میں یونیورسٹی میں اسی طرز کا ایک اور حملہ کر دیا ، بھارتی ایجنٹ پکڑا گیا تو کوئٹہ ہسپتال میں وکیلوں کی نسلیں ختم کر دی گئیں ،
ہمارے حکمرانوں نے پاسبانوں نے ایوانوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے